طالبان اور پاکستانی دانشور…! (احسان اللہ احسان)

پاکستان میں افغان امور کے ماہرین بکثرت پائے جاتے ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنی ماہرانہ رائے بلا تحقیق اور معلومات کے جھاڑتے رہتے ہیں، جدید دور کی دانشوری کے تقاضوں کے مطابق ان ماہرین کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے، اس لیے قارئین کے اعتماد پر پورا اترنے کے لیے ہم اس تقسیم کو ان کے سامنے رکھتے ہیں۔

پہلی گیٹگری کے افغان امور کے ماہرین وہ ہیں جو شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور کہیں نا کہیں، کسی نہ کسی ذریعے سے افغانستان کے زمینی حالات سے باخبر ہیں، انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان کے حق دانشوری یا فن افغان امور کی مہارت کو قبول کریں اور انہیں جائز تبصرے کا حق دیں۔

دوسرے درجے کے ماہرین وہ حضرات ہیں جن کو شاید یہ بھی پتہ نہ ہو کہ افغانستان کس سمت میں واقع ہے، مگر انہیں ٹی وی چینلز کا سکرین میسر ہے اور وہ سینئر اینکر پرسن کے ٹائٹل کے نیچے اپنی ’ماہرانہ‘ رائے ”میرے خیال میں“ کے عنوان کے نیچے بڑی بے شرمی کیساتھ بیان کرتے ہیں ـ یہ صاحبان اپنی ٹیم کے ذریعے گوگل سرچ مار کر کچھ گھسی پٹی معلومات جمع کرکے تکراراً ویوورز تک پہنچا کر خود کی طرح دوسروں کی گمراہی کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔

تیسرے درجے میں سوشل میڈیا کے دانشوروں کی باری آتی ہے، یہ مخلوق تمام ضابطوں، اصولوں اور معلومات کی جنھجٹ سے آزاد ہوتے ہیں، یہ کبھی بھی کچھ بھی بول سکتے ہیں اور اگر کوئی غلطی سے ان کی غلطی کی تصحیح کرنا چاہے تو یہ بھوکے شیر کی طرح ان پر ایسے حملے آور ہوتے ہیں کہ بندہ اپنی جان خلاصی کے لیے ’الامان والحفیظ‘ کے ذکر پر مجبور ہوجاتا ہے ـ افغانستان کے حالات جوں جوں تبدیل ہو رہے ہیں ساتھ ہی ان دانشوروں کی مارکیٹ میں مانگ بھی بڑھ رہی ہے اور ان کے تمام تجزیوں پر ہزاروں ویووز جمع ہوجاتے ہیں۔

انہی میں سے ایک صاحب کا فیس بک پر کیا گیا تجزیاتی پوسٹ نظر سے گزرا، جس میں افغانستان کے حالات کیساتھ تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات پر بھی ’ماہرانہ‘ رائے کا اظہار کیا گیا تھاـ اس تجزیئے کے مطابق افغان اور پاکستانی طالبان ایک دوسرے سے جڑے ہیں ان کے دوستانہ تعلقات ہیں مگر جماعت الاحرار کا معاملہ اس لیے مختلف ہے کہ ان کے افغان طالبان سے مختلف امور پر اختلافات ہیں ـ اس تجزیئے نے اس تاثر کو جنم دیا کہ باقی گروپس کا تو ٹھیک ہیں مگر احرار والے دوستی کے لائن کے پرے ہیں۔

یہ تحریر پڑھنے کے بعد میری یاداشت میں محفوظ چند واقعات تازہ ہوگئے جو اس دعوے کو غلط ثابت کر رہے ہیں کہ افغان طالبان کا جماعت الاحرار سمیت کسی بھی گروپ کیساتھ کوئی ناخوشگوار تعلق ہوگاـ

مجھے یاد ہے جب 2012ء میں لشکر طیبہ کے مقامی کمانڈر حاجی عبدالرحیم نے افغان طالبان کا نام استعمال کرتے ہوئے جماعت الاحرار جو اس ”وقت ٹی ٹی پی مہمند“ تھی، پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو ٹی ٹی پی مہمند کی قیادت نے افغان طالبان کی قیادت سے رابطہ کیا اور اس معاملے کی طرف ان کی توجہ مبذول کروائی ـ ٹی ٹی پی مہمند کی اس شکایت پر ایکشن لیتے ہوئے افغان طالبان نے اعلانیہ طور پر حاجی عبدالرحیم کو باغی قرار دیکر ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا جو آج تک افغان طالبان کی صف سے باہر ہے اور عبدالقیوم ذاکر جو اس وقت افغان طالبان کے شاید نظامی کمیشن کے مسئول تھے، نے فورا کنڑ میں قاری ضیاءالرحمن کو حکم دیا کہ وہ اس گروپ کے خلاف ایکشن لیں جو منع کرنے کے باوجود ٹی ٹی پی مہمند کے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہا ہے ـ مزید یہ کہ اس کے کچھ دن بعد افغان طالبان نے ایک اعلی سطحی وفد بھیجا جس نے ٹی ٹی پی مہمند کے سربراہ عمر خالد خراسانی صاحب سے ملاقات کی اور انہیں اپنی طرف سے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور اس معاملے پر ٹی ٹی پی مہمند کے مسئولین کی شکایات سننے اور اسے قیادت تک پہنچانے کے لیے رابطہ کار بھی مقرر کر دیا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب داعش کا ظہور ہوا اور وہ افغانستان کے ننگرہار اور کنڑ میں پاؤں جمانا چاہ رہے تھے تو افغان طالبان نے باقاعدہ طور پر جماعت الاحرار (خالد خراسانی) کو ننگرہار کے ضلع لعل پورہ، گوشتہ اور کنڑ کے سرکانڑو وغیرہ اضلاع میں ان کا راستہ روکنے اور مقابلہ کرنے کا ٹاسک دیا تھا جس کو جماعت الاحرار والوں نے کامیابی کیساتھ پورا کیا اور ان علاقوں میں داعش کو پنپنے نہیں دیا گیاـ میری معلومات کے مطابق یہ پہلا موقع تھا جب افغان طالبان نے باقاعدہ طور پر کسی ٹی ٹی پی یا ’جہاد پاکستان‘ سے وابستہ گروپ کو کوئی مشن دیا ہوـ

2015ء میں جب یہ بات بہت مشہور ہوئی تھی کہ جماعت الاحرار نے داعش کی بیعت کی ہے یا کرنے کا ارادہ ہے تو اس کی تہہ میں جانے کیلئے ایک بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ جماعت الاحرار نے داعش کے ساتھ بیعت کرنے کیلئے تین شرائط رکھی تھیں۔

پہلی شرط یہ تھی کہ پاکستان اور افغانستان الگ الگ ولایات ہونگی دوسری یہ کہ ہم افغان طالبان کے خلاف لڑنے کے پابند نہیں ہونگے اور تیسری شرط یہ تھی کہ ہمیں کسی بھی ملک کے ساتھ معاہدہ کرنے کی اجازت ہوگی جو اس وقت داعش کے عراقی مرکز کی بھی پالیسی تھی، جس کی رو سے انہوں نے ترکی کے ساتھ کئی معاہدے کئے تھے، اگر سوچا جائے تو یہ تینوں شرائط افغان طالبان کے مفاد کیلئے تھیں ـ اگر اس وقت پاکستان الگ ولایت اور اس کیلئے الگ محاذ بن جاتا تو ظاہر ہے سارے جنگجو پاکستانی نیٹ ورک میں شامل ہوجاتے مگر یہ شرائط حافظ سعید خان (جو اس وقت داعش خراسان کے والی مقرر ہوئے تھے) کیلئے قابل قبول نہیں تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ اس سے سارے جنگجو عمر خالد خراسانی کے پاس چلے جائیں گے، یہی وجہ تھی کہ حافظ سعید خان کی سفارش پر داعش کے مرکزی ترجمان ابومحمد عدنانی کی طرف سے اعلان ہوا کہ پاکستان اور افغانستان ایک ہی ولایت ہوگی اور حافظ سعید خان امیر ہونگے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ یہ سب کچھ افغان طالبان کے مشورے اور منصوبے کے تحت ہورہا تھا اور یہی وجہ تھی کہ عدنانی کے اعلان کے بعد داعش اور جماعت الاحرار کے رابطے اور مذکرات بھی ختم ہوگئے۔

افغان طالبان کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ کسی بھی گروپ کو اکیلا نہیں چھوڑتے ان کے ساتھ رابطہ ضرور رکھتے ہیں ـ 2014ء میں جیسے ہی جماعت الاحرار کا اعلان ہوا تو افغان طالبان کی طرف سے امتیازی طور پر جماعت الاحرار والوں سے بیعت لینے کیلئے باقاعدہ وفد ان کے مرکز بھیج دیا گیا تھا۔

جماعت الاحرار اور افغان طالبان کے مضبوط تعلق کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ افغان طالبان کے ساتھ اختلاف اور کسی بھی طرح کی انتظامی بدمزگی سے بچنے کے لیے جماعت الاحرار نے اپنے ان 2500 مسلح جنگجؤوں کو اسلحہ سمیت افغان طالبان کو تسلیم کر لیا جن کا افغانستان سے تعلق تھا، ان مسلح جنگجوؤں کا باقاعدہ ایک دلگے (گروپ) افغان طالبان کے نیٹ ورک میں رسمی ہوا جس کو ”جنود خراسان“ بھی کہا جاتا تھا، یعنی جماعت الاحرار نے افغانستان کے اندر اپنا پورا نیٹ ورک افغان طالبان کی خواہش پر ہی ختم کر دیا تھا۔

میں کم از کم دو ایسے مشہور کمانڈرز کو جانتا ہوں جنہیں افغان طالبان نے ٹی ٹی پی مہمند کیساتھ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کے بنیاد پر اپنے عہدے سے یا تو معزول کیا اور یا انہیں وہاں سے تبدیل کردیا۔

2010ء میں ایک اہم کمانڈر نے جب ٹی ٹی پی مہمند کے خلاف ننگرہار اور کنڑ میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا تو عمر خالد خراسانی صاحب کی شکایت پر انہیں دس دن کے اندر اندر اپنے عہدے سے معزول کروایا گیا تھا۔

مذکورہ تمام واقعات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ جماعت الاحرار اور افغان طالبان کے تعلقات کو جس طرح خراب قرار دیا جاتا ہے ویسے حقیقت میں بالکل بھی نہیں، ان تعلقات کی خرابی کے لیے جو دلیلیں پیش کی جاتی ہیں وہ دراصل افغان طالبان اور جماعت الاحرار کے مضبوط تعلق کی نشاندہی کرتی ہے کہ جب بھی ان کے درمیان دراڑ ڈالنے یا بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے انہیں دونوں تنظیموں کی قیادت نے ناکام بنایا جو آپس کے گہرے روابط کا ثبوت ہے۔

اس وقت اگرچہ جماعت الاحرار کے تمام گروپس ٹی ٹی پی میں ضم ہوئے ہیں اور اب سب کا افغان طالبان کے ساتھ یکساں تعلق ہے مگر پھر بعض لوگ اس میں اپنی دانشوری جھاڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان کے انٹیلجنس اداروں نے ان تعلقات کو خراب کرنے کے لیے لشکر طیبہ اور دیگر چھوٹے گروپس کا استعمال کیا ہے مگر ابھی تک انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے اور بہت سے ایسے کمانڈرز مجھے معلوم ہیں جن کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا یا وہ عمرخالد خراسانی کے مخالفین میں سے تھے، افغان طالبان کے مراکز کے اندر ٹارگٹ ہوئے جس سے بہت کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔

میں ان جعلی دانشوروں اور افغان امور اور جہادی تنظیموں سے متعلق امور پر تجزیئے کرنے والوں کو مشورہ دوں گا کہ آپ کا اخلاقی اور صحافتی فرض بنتا ہے کہ کسی بھی معاملے سے متعلق رائے دینے سے پہلے اپنی معلومات پوری کرلیں تاکہ کل کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں