آخوند خراسانی اور ایران کی تحریکَ جمہوریت…! قسط اوّل (حمزہ ابراہیم)

پچھلے دو عشروں میں ایران میں نہایت اہم دستاویزات شائع ہوئی ہیں جو ایران میں آئینی جمہوریت کی تحریک (1906ء ۔1911ء) کے بارے میں علما کے کردار کا تجزیہ کرنے اور اس سلسلے میں مزید تحقیقی کام کرنے میں مدد دیتی ہیں ۔مغرب میں اس تحریک پر کئے گئے مطالعات کا موضوع یا شیخ فضل الله نوری (متوفی 1909ء) کا کردار رہا ہے جو آئین کی حکومت کے مخالف تھے یا آیت الله محمّد حسین نائینی کہ جو آئینی جمہوریت کے حامی سمجھے جاتے تھے ۔

[1] حال ہی میں کی گئی بعض علمی تحقیقات میں ایران میں صوبائی سطح پر علما کے کردار اور شیعہ مسلک میں نسبتاً کم پیروکار رکھنے والے فکری رجحانات مثلاً شیخی یا صوفی شیعوں کے کردار کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے جو اس تحریک میں علما کے کردار کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔

[2] 2006ء میں محسن کدیوَر صاحب نے اس زمانے میں اہل تشیع کے مرجع اعلیٰ آیت الله العظمیٰ محمد کاظم خراسانی (متوفی 1911ء)، المعروف بہ آخوند خراسانی، کے خطوط اورسیاسی فتاویٰ کو ”سیاست نامہ خراسانی“ کے عنوان سے ایک کتاب کی شکل میں اکٹھا کر کے شائع کیا ۔ان دستاویزات اور ان کے علاوہ آخوند خراسانی کے دوسرے آثار کی مدد سے آئینی جمہوریت کی تحریک پر ان کے نظریات کی چھاپ اور ان کے صحیح کردار کو سمجھنا ممکن ہو گیا ہے ۔

[3]۔ آئینی تحریک کے آغاز کے وقت اصولی مجتہد آخوند خراسانی شیعی دنیا کے مرجع اعلیٰ بن چکے تھے، اور تمام مراجع میں سے ان کو سب سے بہتر مجتہد سمجھا جاتا تھا ۔اس وقت اس طرح کی قیادت کو مرجعیت کے بجائے ریاست دینیہ کہا جاتا تھا۔

[4] چنانچہ آخوند خراسانی کو علمائے نجف کا سردار اور اہل تشیع کا روحانی پیشوا (مقام ریاست روحانی شیعہ) کہا جاتا تھا۔

[5] دوسرے مراجع میں آیت الله سید محمد کاظم یزدی(متوفی 1919ء)، آیت الله عبدالله مازندرانی (متوفی 1912ء) اور آیت الله مرزا محمد حسین تہرانی (متوفی 1908ء) شامل تھے ۔سید کاظم یزدی کے فقہ کےدروس معروف تھے ۔ٹیلیگراف اور اخبارات کی ایجاد نے آخوند خراسانی کو وہ پہلا مرجع اعلیٰ بنا دیا کہ جو شیعہ عوام سے بلا واسطہ مخاطب ہو سکتا ہو ۔حقیقت میں تو یہ ٹیلیگراف کی بدولت ہی ممکن ہوا تھا کہ ان کے پیشرو آیت الله العظمیٰ مرزا محمّد حسین شیرازی (متوفی 1894ء) نے 1891ء میں ٹالبوٹ تمباکو کمپنی کے خلاف ایرانی عوام کو کامیابی سے متحرک کیا تھا۔

[6] یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ایران میں آئینی جمہوریت کی تحریک میں آخوند خراسانی کا کردار اس کومذہبی جواز فراہم کرنا تھا، کیوں کہ وہ کبھی خود عراق کے مقدس شہروں سے اٹھ کر ایران نہیں گئے اور نہ ہی انہوں نے اپنے سیاسی افکار کو ایک کتاب یا پروگرام کی شکل میں لکھا۔

[7] محسن کدیور صاحب کی شائع کردہ دستاویزات کا جائزہ لینے سے ان کے موقف کے بنیادی خدوخال واضح ہوتے ہیں ۔یہ دستاویزات بنیادی طور پر اعلامیے ہیں جن میں سے بعض بہت مختصر ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور انہیں ٹیلیگراف اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی مدد سے ایران اور عراق میں بڑے پیمانے پر نشر کیا گیا ۔تاہم ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ یہ دستاویزات مکمل نہیں ہیں اور آخوند خراسانی سے منسوب بعض چیزیں دوسری جگہوں پر ملتی ہیں جن کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

آخوند خراسانی کی حیات و خدمات اور آئینی جمہوریت کی تحریک کی نظریاتی تشکیل کرنے والے افکار کا جائزہ پیش کرنے کے بعد میں ان کے بارے میں شائع شدہ مواد میں موجود بنیادی تصورات کا ایک جائزہ پیش کروں گا۔ میری توجہ ان کے اعتدال پسندآئینی موقف، جدت پسند ی اور بلند نگاہی کی سیاست، مغربی دنیا کے ساتھ پیچیدہ تعلقات اور قاجار بادشاہ سے معاملات کو سمجھنے پر ہو گی ۔چونکہ عراق میں رہتے ہوئے آخوند خراسانی نے ایران کی عملی سیاست کے اتار چڑھاؤ سے خود کو دور رکھا تھا، اس عمل نے ان کو جمہوری تحریک کے اکثر کرداروں کیلئے روحانی باپ کا درجہ دے دیا تھا ۔ان کے اس کردار کے پیش نظر میں ان کے مواضع کا دوسرے آئین نواز علما اور خاص طور پر آیت اللہ شیخ اسماعیل محلاتی(متوفی 1924ء) اورثقۃ الاسلام تبریزی (متوفی 1911ء) سے تقابل بھی پیش کروں گا جو ان کے نظریاتی پیرو تھے ۔آیت اللہ اسماعیل محلاتی ایک پر نفوذ عالم دین تھے جو نجف میں ہی مقیم تھے اور جیسا کہ آگے جا کر پتا چلے گا، انہوں نے اپنے سیاسی نظریات کو کتابی شکل میں بھی پیش کیا۔

[8]ثقۃ الاسلام تبریزی ایران کے شہر تبریز میں شیخی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی ایک متحرک اصلاح پسند اور جمہوری شخصیت تھے اور انہوں نے سیاست کے موضوع پر متعدد کتابچے لکھے ۔

آخوند خراسانی کی حیات و آثار

آخوند خراسانی 1839ء میں ایران کے شہر مشہد میں ہرات سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے ہاں پیدا ہوئے ۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اسی شہر میں حاصل کی اور شادی کے بعد 1860ء میں سبزوار چلے گئے جہاں انہوں نے ملا ہادی سبزواری (متوفی 1873ء) سے قدیم فلسفے کی تعلیم حاصل کی ۔1862ء میں وہ کچھ عرصہ تہران میں ملا حسین خوئی کے ہاں گزارنے کے بعد نجف چلے گئے، جہاں انہیں آیت الله العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاری (متوفی 1864ء)کے درس میں شرکت کا موقع ملا ۔اس کے بعد انہوں نے آیت الله العظمیٰ سید مرزا محمّد حسین شیرازی کے درس میں شریک ہونا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ 1874ء میں مرزا شیرازی کے سامرا منتقل ہونے تک جاری رہا ۔اس کے بعد انہوں نے نجف میں درس دینے کا سلسلہ شروع کیا ۔ان کا اصول فقہ کا درس کافی مشہور ہوا اور 1894ء میں مرزا شیرازی کی وفات کے بعد وہ سب سے بڑے مرجع کے طور پر ابھرے۔

[9] آخوند خراسانی نے 20 دسمبر 1911ء کو سکتہ مغزی (stroke) سے وفات پائی ۔اس وقت روس نے ایران پر حملہ کر دیا تھا اور تبریز، مشہد اور تہران پر قبضہ ہو چکا تھا، اس کے نتیجے میں 24 دسمبر 1911ء کوپارلیمان تحلیل ہو گئی ۔اس صورت حال میں آخوند خراسانی نجف سے تہران جا رہے تھے کہ راستے میں وفات پا گئے۔ آخوند خراسانی کا سب سے اہم علمی کام فلسفہَ شریعت پر ان کی کتاب کفایۃ الاصول ہے جو آج تک شیعہ مدارس میں اصول فقہ کی سب سے اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔

[10] اس کتاب پر کئی شیعہ مجتہدین نے شرحیں لکھی ہیں جن میں آیت اللہ العظمیٰ ابو القاسم خوئی کی شرح خاص اہمیت رکھتی ہے ۔اس کتاب کے مطالب کا شیخ مرتضیٰ انصاری کے نظریات سے تقابل کیا جاتا ہے ۔یہ کتاب آخوند خراسانی کی مستمر شہرت کی بنیادی وجہ بنی ہے، اور اسی وجہ سے محسن کدیور نے سیاست نامۂ خراسانی کے سر ورق پر ان کے نام کے آگے ”صاحبِ کفایہ“ لکھا ہے ۔اصول فقہ میں آخوند خراسانی کے نظریات اس قدر پختہ ہیں کہ آج بھی حوزہ علمیہ کی بنیاد اس کتاب پر قائم ہے ۔

آخوند خراسانی اکثر شیعہ مراجع تقلید کی دنیاوی معاملات میں احتیاط کی سیاست کا مجسم نمونہ ہیں اور اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ وہ کبھی ایران نہیں آنا چاہتے تھے لیکن جب کبھی انہوں نے دیکھا کہ ”حسبیہ“ یعنی اخلاقی نظم کو خطرہ لاحق ہے تو ایسے نازک مواقع پر سیاسی منظر نامے پر ظاہر ہوئے ۔چنانچہ 1899ء میں انہوں نے ”شرکتِ اسلامی“ نامی تجارتی کمپنی کی حمایت کی ۔یہ ایک جدید طرز کی کپڑے کی کمپنی تھی جس کی بنیاد اصفہان کے ایک امیر تاجر حاج کازرونی (متوفی 1931ء) نے 1898ء میں شہر کے متعدد علما کی حمایت سے رکھی تھی ۔شرکت اسلامی کا طریقہ کار، اس کا مقصد اور اہداف ایک دستور العمل کی شکل میں لکھے گئے تھے ۔اس کا ہدف تمام ایرانی تاجروں کو ایک چیمبر آف کامرس میں اکٹھا کرنا تھا تاکہ ایران میں مغربی تجارتی اداروں کے اثر و نفوذ کا مقابلہ کیا جا سکے ۔حاج کازرونی نے اپنے کام کا آغاز تاجروں کو اس بات کی طرف دعوت دینے سے کیا کہ وہ عوام میں درآمد شدہ کپڑے کے استعمال کے خلاف تشہیری مہم چلائیں ۔اس زمانے میں برطانیہ میں تیار ہونے والا کپڑا ایران میں بہت پسند کیا جاتا تھا ۔اگلے مرحلے میں شرکت اسلامی نے ایران کے بڑے تاجروں کو اس بات کی طرف مائل کرنا تھا کہ وہ استعمال کی چیزیں تیار کرنے کے جدید کارخانے لگائیں تاکہ مغرب پر انحصار کم کیا جا سکے ۔اس کمپنی نے جلد ہی اپنی شاخیں تبریز اور تہران میں بھی کھول لیں، لیکن 1903ء میں دیوالیہ ہو گئی۔

[11] اس منصوبے کیلئے اپنی حمایت کی تشہیر کیلئے آخوند خراسانی نے قاہرہ سے چھپنے والے اخبار ”ثوریہ“ سے بھی مدد لی۔

[12] 1902ء سے 1904ء کے سالوں میں انہوں نے عتبات کے دوسرے علما کے ہمراہ ایران کے شاہی دربار کی فضول خرچی، دربار کے بعض ارکان کی طرف سے سرکاری جائیداد کے غبن اور روس کے بڑھتے ہوئے قرضوں کے خلاف کئی خطوط روانہ کئے اور بعض وزراء کو خیانت کا مرتکب قرار دیا۔

[13] انہوں نے بڑھتی ہوئی معاشی مراعات پر اعتراض کرنے کے علاوہ جوزف ناؤس پر بھی تنقید کی جو بیلجیم کا ایک سفارتکار تھا اور اسے بادشاہ کی طرف سے ایران کے کسٹمز اور ڈاک کے نظام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اگرچہ اس کی تجویز کردہ اصلاحات بعد میں مفید ثابت ہوئیں۔

[14، 15] خط و کتابت کا یہ سلسلہ 1903ء میں عین الدولہ کے وزیر اعظم بنائے جانے کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی تناؤ کے دوران چلا۔

[16] اس زمانے میں مختلف گروہوں میں ایک طرح کا سیاسی اتحاد ابھرنے لگا تھا جن میں تاجر، دکان دار، مفکرین اور علماء شامل تھے ۔البتہ آخوند خراسانی نے گاہے بگاہے بادشاہ مظفر الدین شاہ قاجار (متوفی 1907ء) پر اپنے اعتماد کا اظہار بھی کیا۔

[17] نجف کے باقی ایرانی علما کی طرح، جن میں ان کے شاگرد آیت الله محمّد حسین نائینی نمایاں تھے، آخوند خراسانی عراق کے سیاسی حالات کو بھی مدِ نظر رکھتے تھے ۔بعض اوقات ان کے خطوط اور مضامین عراق یا مصر میں شائع ہونے کے بعد ایران میں پہنچتے تھے۔ انہوں نے کئی ایک مدرسے بھی قائم کئے اور کچھ جدید سکول بھی بنائے، نیز کربلا میں ایک عوامی کتب خانہ قائم کیا ۔عراق میں انہیں ابو الاحرار (آزادی خواہوں کا سرپرست) کہا جاتا تھا لیکن آئینی تحریک کی مسلسل حمایت کی وجہ سے نجف میں آیت الله سید کاظم یزدی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو عتبات میں شیخ فضل الله نوری کے جزوی حمایتی تھے ۔آیت الله یزدی، جو فقہ کی ایک اہم کتاب العروۃ الوثقیٰ کے مؤلف بھی ہیں، نجف کے بڑے فقہاء میں سے تھے ۔اپنے کچھ مریدوں، جیسے سید اکبر شاہ وغیرہ، اور جرائم پیشہ افراد جیسے زوکرت گینگ اور شومورت گینگ کی مدد سے انہوں نے 1907ء میں آخوند خراسانی کا نجف میں جینا مشکل کر دیا۔

[18] اگرچہ وہ آخوند خراسانی کو خاموش تو نہ کرا سکے لیکن انہوں نے نجف میں ان کے اثر و رسوخ کو نقصان پہنچایا، بالخصوص اس وقت جب 1908ء میں بادشاہ نے ایران کی نوزائیدہ پارلیمنٹ پر بمباری کرائی اور جب آئین مخالف گروہوں کی مدد سے وہ تہران پر قابض ہوا تو 23 جون 1908ء میں اس نے پارلیمان کو بند کر دیا۔

[19] اس زمانے میں بہت سے لوگ موت کے خوف سے آخوند خراسانی کا ساتھ دینے سے ڈرتے تھے ۔آیت الله نائینی نے آیت الله کاظم یزدی کے ساتھیوں کو استبداد کی مذہبی شاخ قرار دیا ہے۔

[20] ان مصائب کے باوجود آخوند خراسانی کو صف اول کے دوسرے مراجع، جیسے آیت الله عبداللہ مازندرانی اور آیت الله مرزا محمّد حسین تہرانی کے ساتھ ساتھ آیت اللہ اسماعیل محلاتی، آیت الله محمّد حسین نائینی اور شیخ مہدی مازندرانی کی حمایت حاصل رہی ۔ان کے اصول فقہ کے درس میں طلاب کی شرکت بہت زیادہ رہی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب حالات تھوڑے بہتر ہوتے تھے تو اکثر طلاب آخوند خراسانی کی حمایت بھی کیا کرتے تھے ۔آخوند خراسانی کے اکثر بیانات پر دوسرے مراجع آیت الله عبد الله مازندرانی اور آیت الله مرزا حسین تہرانی کے تائیدی دستخط موجود ہیں ۔بہت سے دوسرے علما، جو علمی اعتبار سے مراجع سے کم تھے، نے بھی آیت الله یزدی اور آخوند خراسانی میں اختلاف ختم کرنے کی کوشش کی مگر بے سود رہی۔

[21] یہاں تک کہ دوسری پارلیمان کے خاتمے کے ایام میں، جب ایرانی جمہوریت کو آذربائیجان اور خراسان میں پیش قدمی کرتی ہوئی روسی افواج سے خطرہ تھا، ایرانی عوام کو جہاد کی دعوت دینے کیلئے آیت الله یزدی نے باقی مراجع کے فتوے پر دستخط کرنے کے بجائے الگ سے فتویٰ دیا۔

[22] (عرض مترجم: البتہ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ آیت الله کاظم یزدی سماجی حالات سے دور گوشہ نشینی کی زندگی گذارتے تھے اور جب پارلیمنٹ نے آئین بنا کر منظوری کیلئے نجف بھیجا تو انہوں نے بھی باقی مراجع کے ساتھ آئین کو پڑھا تو اس میں کچھ جزوی تبدیلیوں کے بعد تائیدی دستخط کر دیئے ۔جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ شیخ فضل الله نوری کے برعکس وہ جمہوریت کو کفر نہیں سمجھتے تھے اور ان کی طرف سے آخوند خراسانی کی مخالفت کی وجہ شیخ فضل الله نوری کا وہ پروپیگنڈا تھا جس میں لڑکیوں کے لئے سکولوں کی تعمیر کو قحبہ خانے بنانے کا منصوبہ کہنے جیسے جھوٹ شامل تھے ۔)

نوٹ: یہ سلسلہٴ مضامین پروفیسر ڈینس ہرمن کے مقالے کا اردو ترجمہ ہے جو اقساط کی شکل میں پیش کیا جاۓ گا-


ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں