آخوند خراسانی اور ایران کی تحریکَ جمہوریت…! قسط دوم (حمزہ ابراہیم)

آخوند خراسانی کے نزدیک آئینی جمہوریت کا تصور
جیسا کہ حائری اور مارٹن نے ذکر کیا ہے، یقینی طور پر سید محمّد طباطبائی (متوفی 1918ء) کے سوا کسی آئین کے حامی مجتہد نے جدید آئینی ریاست کی تحریک کا واضح فہم پیش نہیں کیا، اور اس سے آخوند خراسانی بھی مستثنیٰ نہیں.

[23] جب ایران میں جمہوری تحریک شروع ہوئی تو آئین پر قائم ریاست، جسے ان دنوں ایران میں ”مشروطہ“ کہا جاتا تھا، کی تعریف میں ابہام تھا ۔سید محمّد طباطبائی، جو تحریکِ جمہوریت کے نمائندےاور قائد تھے، کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ علما کے ہاں آئین پسندی کا تصور ابھی اتنا واضح نہیں ہے ۔انہوں نے کہا:

”ہم نے آج تک آئین کی حکومت کا تجربہ نہیں کیا ہے، لیکن ہم نے ایسی دوسری حکومتوں کے بارے میں سنا ہے، اور وہ لوگ جو ایسے ممالک میں گئے ہیں جہاں سب کیلئے یکساں مدون شدہ قانون کی حکومت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایسی حکومت ہمارے ملک میں امن و امان اور خوشحالی لائے گی ۔اس بات نے ہمارے اندر جوش و جذبہ پیدا کر دیا ہے اور ہم اپنے ملک میں آئین کی حکومت قائم کرنے کیلئے نکل پڑے ہیں ۔“

[24] تبریز سے تعلق رکھنے والے آئینی جمہوریت کی تحریک کے ایک اور حامی، شیخی شیعہ عالم ثقۃالاسلام تبریزی، نے اپنی تحریروں میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے شہر کی مسجدوں اور انجمن ملی کے ہاں خطاب کرنے کے سلسلے کو بڑھا دیا ہے تاکہ وہ عوام کو آئینی جمہوریت کا معنی سمجھا سکیں۔

[25] اس کے نتیجے میں دوسری صف کے علما اور اہل فکر جمہوری تحریک میں شامل ہونے لگے۔ آخوند خراسانی نے آئینی جمہوریت کے بارے کوئی رسالہ یا منشور لکھنے سے گریز کیا، لیکن انہوں نے اپنے شاگردِ خاص آیت الله نائینی کی کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ“ کی تائید کی۔

[26] آیت الله نائینی سیاست کے میدان میں کافی متحرک تھے اور آیت الله العظمیٰ مرزا حسن شیرازی کے نزدیک ہونے کی وجہ سے انہوں نے تمباکو بیچنے والی برطانوی کمپنی ٹالبوٹ کو خاص رعایت ملنے کے خلاف چلائی گئی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔1898ء سے وہ آخوند خراسانی کے قریبی افراد میں سے تھے ۔بعض محققین کا کہنا ہے کہ آخوند خراسانی کوئی فتویٰ یا بیان دینے سے پہلے آیت الله نائینی سے مشورہ کیا کرتے تھے۔

[27]اپریل 1909ء کی ایک مختصر تحریر میں آخوند خراسانی نے تنبیہ الامہ وتنزیہ الملہ کو رسالہٴشریفہ کہا ہے اور اس تحریر کو آیت الله نائینی نے کتاب کے مقدمے میں نقل کیا ہے۔

[28] تاہم لگتا ہے کہ آخوند خراسانی نے آیت اللہ اسماعیل محلاتی کی کتاب ”اللیالی المربوطہ فی وجوب المشروطہ“کے لکھنے میں زیادہ اہم کردار ادا کیا جو اس سے ایک سال پہلے 1908ء میں لکھی گئی۔

[29] محرم 1909ء میں آیت الله محلاتی نے آخوند خراسانی کے کہنے پر ایک اور کتابچہ بعنوان ”مراد از سلطنتِ مشروطہ“ لکھا۔

[30] ان دو علماء کے آخوند خراسانی سے قریبی تعلق کا پتا جولائی 1910 ء کے اس خط سے بھی چلتا ہے کہ جس میں آخوند خراسانی اور آیت الله عبدالله مازندرانی پارلیمنٹ میں اپنے نمائندوں کے طور پر آیت الله نائینی اور آیت الله محلاتی کے نام تجویز کرتے ہیں۔

[31] حائری نے ان دونوں حضرات کو آخوند خراسانی کی فکر کا امین کہا ہے۔

[32] اپنی کتابوں میں آیت الله نائینی اور آیت الله محلاتی نے بڑی وضاحت کے ساتھ پارلیمان کی حمایت کی، اگرچہ ان کے طرزِ استدلال میں باریک فرق پایا جاتا ہے۔ میری رائے میں آخوند خراسانی کے آثار سے جو پیغام ملتا ہے وہ آیت الله محلاتی کے نظریات کے زیادہ قریب ہے ۔ان دونوں کے نزدیک صرف امامِ معصومؑ کی قیادت میں بننے والی حکومت ہی شرعی کہلا سکتی ہے اور وہی حکومت دینی اعتبار سے جائز ہے ۔تحریک جمہوریت کے اعتدال پسند علما، جیسے روح الله نجفی اصفہانی اور ثقۃ الاسلام تبریزی، نے بھی یہی موقف اپنایا۔

[33] انہوں نے کہا: ”ایران کی بری و بحری حدود کی حفاظت اور موجودہ بادشاہت کا دفاع شرعی ذمہ داری نہیں ہے ۔آئینی جمہوریت کیلئے ہماری حمایت دراصل اسلام کے جوہر کا تحفظ کرنا ہے ۔“

[34] یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات کیلئے شرعی حکومت زمان و مکان سے آزاد ہوتی ہے۔ البتہ آخوند خراسانی اور آیت الله شیخ اسماعیل محلاتی کی تحریروں اور آثار میں اس قسم کے اعتقادی نوعیت کے سوالات کو محور نہیں بنایا گیا ہے۔

[35] آیت الله حسین نائینی کی کتاب میں البتہ امام مہدیؑ کی غیبت کے زمانے میں حکومت کی مختلف ممکنہ شکلوں کی شرعی حیثیت پر نسبتاً زیادہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بحث کی گئی ہے ۔وہ متعدد صفحات میں دو قسم کی حکومتوں میں فرق واضح کرتے ہیں: ایک طرف ظالمانہ بادشاہت اور دوسری طرف مشروط، محدود اور آئین کی پابند حکومت۔

[36] اس بنیاد پر آگے چل کر وہ علما کو بھی دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک وہ جو ظلم کی مخالفت کو مذہبی فرض سمجھتے ہیں اور دوسرے جو ان کے مخالفین ہیں اور ایسے علما کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

[37] ایسی صورت میں سیاست سے لا تعلق رہنا ممکن نہیں ہوتا ۔آیت الله نائینی کے مطابق ظلم کی تین بڑی اقسام ہیں: خدا کے حق میں ظلم، امام زمانؑ کے حق میں ظلم اور عوام کے حق میں ظلم ۔غیبتِ امامؑ میں ایک آئینی جمہوریت جسے عادل فقہا کی حمایت حاصل ہو وہ عوام پر ہونے والے ظلم کو روک سکتی ہے ۔آگے چل کر وہ بادشاہ کے کردار کو محدود کر کے متولی تک لے آتے ہیں، جو اپنے فیصلوں میں علما سے تائید لینے کا پابند ہو گا۔

[38] شاید آیت الله نائینی کیلئے اس وقت کے آئین کے آرٹیکل 35 کی یہی تشریح تھی, جس کے مطابق بادشاہت عوام کی امانت ہے جو انہوں نے بادشاہ کی ذات پر اعتماد کی شکل میں اسے دی ہے ۔

آخوند خراسانی اور آیت الله اسماعیل محلاتی کے مطابق غیر مذہبی حکومتیں دو قسم کی ہو سکتی ہیں: عادل اور ظالم۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ظلم کو دبانے اور عدل و انصاف کو قائم کرنے کیلئے کوشش کریں تاکہ اسلام کی بنیادوں کا تحفظ ہو سکے جو مغرب کے بڑھتے قدموں سے خطرے میں تھا ۔پس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قرآنی اصول مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔

[39] چونکہ جمہوریت کی تحریک کا مقصد عدل و انصاف کو قائم کرنا ہے لہذا اس کی مخالفت امام زمانؑ سے جنگ کے مترادف ہے۔

[40] اور گویا یزید کی حمایت کرنا ہے۔

[41] آخوند خراسانی اور آیت الله محلاتی کے نزدیک قاجار سلطنت کے طور طریقے نا قابل برداشت تھے، خصوصاً جب سے محمّد علی شاہ قاجار (متوفی 1925ء) تخت نشین ہوا تھا۔

جب اسلام کی بنیادوں کے تحفظ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور آئینی جمہوریت کی مخالفت کو امام زمانؑ سے جنگ کہا جانے لگا تو یہ مفاہیم نجف کے تینوں بڑے مراجع آخوند خراسانی، آیت الله مازندرانی اور آیت الله حسین تہرانی کے مشترکہ اعلامیوں میں جمہوریت کے دفاع میں بار بار ذکر کئے جانےلگے۔

اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ آیت الله نائینی نے اپنی کتاب میں قرآن و حدیث کے مفصل حوالے دئیے تھے ۔آخوند خراسانی اور آیت الله اسماعیل محلاتی نے آئینی جمہوریت کی مشروعیت کی بحث کرنے کے بجائے قوم کی اصلاح، تعلیمی نظام، فوج اور مالیات کو بہتر بنانے پر توجہ دی ۔آخوند خراسانی اور آیت الله محلاتی آئینی جمہوریت کے اسلام کے عین مطابق ہونے کو بدیہی اور آشکار حقیقت سمجھتے تھے کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ صرف ایک جمہوری سیاسی عمل ہی مسلم دنیا میں حقوق کے تحفظ اور عدل و انصاف کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے اور اس کو داخلی طور پر مضبوط کر سکتا ہے ۔اپنی کتاب لیالی المربوطہ فی وجوب المشروطہ کے پہلے حصے میں آیت الله محلاتی آئین کی پابند حکومت اور آمریت میں فرق کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں: وہ چیزیں جواچھی حکومت کیلئے لازم ہیں جیسے بجٹ میں قوم کی آمدنی اور اخراجات کا صحیح حساب رکھنا، زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج بنانا، قومی معیشت کو ترقی یافتہ بنانا، اور بیرون ملک رہنے والے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا، وغیرہ ۔وہ اس بات کا اضافہ بھی کرتے ہیں کہ یہ شرائط اسلام کی تعلیمات تک محدود نہیں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں جو ان کو بھیجا گیا تھا، آیت الله اسماعیل محلاتی فرماتے ہیں کہ حکومتیں، چاہے وہ مسلمانوں کی ہوں یا دوسروں کی، ان میں فرق ان کے آئین کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے:

”یہ دو لفظ ’آئینی‘ اور ’آمرانہ‘ محض اسم صفت ہیں جو حکومت کی مختلف اقسام کو بیان کرتے ہیں ۔اگر حکمران تمام اختیارات اپنی ذات میں اکٹھے کر لے تو اس کی حکومت آمرانہ ہے ۔دوسری طرف اگر حکمران کے اختیارات عوام کی طرف سے محدود کئے گئے ہوں تو یہ آئین کی حکومت ہے ۔اس تفریق کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔کسی قوم کے شہریوں کا جو بھی مذہب ہو، چاہے وہ موحد ہوں یا مشرک، مسلمان یا کافر، ان کی حکومت یا تو آمرانہ ہو سکتی ہے یا آئین کی پابند!“

[42] اس زاویئے سے دیکھا جائے تو آخوند خراسانی اور آیت الله محلاتی کا موقف اس دور کے بعض اصلاح پسند سنی علما کے موقف کے نزدیک معلوم ہوتا ہے ۔مثال کے طور پر ہم مولانا خیر الدین التونسی (متوفی 1881ء) کا ذکر کر سکتے ہیں جو اپنی کتاب ”اقوم المسالک فی معرفۃ احوال الممالک“ میں لکھتے ہیں: ”بنیادی ضرورت اچھی حکومت ہے جس کے نتیجے میں امن، امید اور کام میں وہ مہارت پیدا ہوتی ہے جو یورپی ممالک میں نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔یورپ نے یہ مقاصد اور علمی پیشرفت اور صنعت اچھے نظم و نسق سے حاصل کئے جس کی بنیاد انصاف پر مبنی سیاسی نظام پر ہے ۔ ۔ ۔خدا کا یہ قانون اس کے کلام میں آیا ہے کہ انصاف، اچھی مدیریت اورایسا انتظامی ڈھانچہ جس کی سب پابندی کرتے ہوں، دولت، آبادی اور جائیداد کی ترقی کا سبب بنتا ہے ۔“

[43] چنانچہ آئینی جمہوریت آخوند خراسانی اور آیت الله محلاتی کیلئے سب سے بڑھ کر ایک فلاحی حکومت ہے ۔لہٰذا وہ پارلیمانی نظام کے اسلامی جواز اور اس کے طریقہ کار پر چند سطروں سے زیادہ کچھ نہیں لکھتے ۔وہ نہ تو شوریٰ کی بحث میں پڑتے ہیں نہ ہی مقننہ کے وجود اور اسکے ڈھانچے پر کوئی رائے دیتے ہیں۔

[44] البتہ دوسرے آئین پسند علما کیلئے یہ واضح تھا کہ مقننہ اور پارلیمنٹ ایک نئے ایران کی تعمیر کریں گے ۔ایک آئین پسند عالم شیخ عبد الرسول مدنی کاشانی کی ایک تحریر کے کچھ جملے صراحت سے یہ بات بیان کرتے ہیں:

”مقننہ کلی قوانین طے کرے گی، عدلیہ ان کی روشنی میں جزئیات کی تشریح کرے گی اور انتظامیہ ان کو نافذ کرے گی ۔“

[45] آخوند خراسانی اور آیت الله محلاتی کے لئے سب سے اہم بات یہ تھی کہ علما اس ناگزیر تحریک کا ساتھ دیں تاکہ آئین اسلامی احکام کے مطابق بن سکے ۔وہ جب اپنے مثالی سیاسی ہدف کا ذکر کرتے تو اس کیلئے ” جمہور مسلمین“ کی اصطلاح استعمال کرتے۔

[46] اور اس طرح آیت الله نائینی کے برعکس علماء اور مجتہدین کو سیاست میں باقی عوام سے بالا تر کوئی مقام دینے کے قائل نہیں تھے ۔اس معاملے میں آخوند خراسانی اجتماعی دانش کو فرد کی ذاتی زندگی کے معاملات سے الگ کر کے دیکھتے ہیں کہ جن میں مجتہد اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔اس کے باوجود آخوند خراسانی نے آئینی جمہوریت پر کوئی مستقل کتابچہ لکھنے سے گریز کیا اور اس اصول کا ذکر اپنے بیانات میں اختصار کے ساتھ کیا ۔وہ وقت کے دھارے کے ساتھ چلتے اور پارلیمنٹ کے لئے اپنی حمایت کا اظہار صرف حفظ بنیاد اسلام اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حوالے سے کرتے تھے۔

نوٹ: یہ سلسلہٴ مضامین پروفیسر ڈینس ہرمن کے مقالے کا اردو ترجمہ ہے جو اقساط کی شکل میں پیش کیا جاۓ گا-


ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں