آخوند خراسانی اور ایران کی تحریک جمہوریت…! قسط سوم (حمزہ ابراہیم)

آخوند خراسانی بطور مرکز اتفاق و اعتدال

آخوند خراسانی کے متعدد خطوط اور بیانات کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے معتدل اور مفاہمتی لب و لہجے کا سامنا ہوتا ہے ۔یہ لب و لہجہ اس وقت بھی قائم رہتا ہے جب پارلیمان کو پہلی بار توڑا گیا اور اس وقت بھی جب اسے دوسرے بار توڑے جانے کا خطرہ منڈلا رہا تھا ۔اگرچہ ان مواقع پر دوسرے جمہوریت خواہ علما ، جیسے عبد الحسین لاری اور عماد العلما خلخالی نے تند و تیز زبان استعمال کی ۔[47] ہم ایسے کئی مواقع کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں آخوند خراسانی نے نہایت محتاط اور معقول رویہ اختیار کیا ۔

مثال کے طور پر 1906ء میں جب آخوند خراسانی سے سوال کیا گیا کہ کفار سے مال خریدنا کیسا ہے تو انہوں نے اس شرط کے ساتھ اس کو جائز قرار دیا جب وہ مسلمانوں کے مقابلے میں ان کی طاقت میں اضافے کا سبب نہ ہو ۔ان کی تحریروں میں ”حرام“ اور ”کفار“ جیسے الفاظ بہت کم ملتے ہیں ۔[48] یہ بھی قابل غور ہے کہ انہوں نے حتیٰ شیخ فضل الله نوری کے بارے بات کرتے ہوئے بھی تہذیب کا دامن نہ چھوڑا ۔انہیں امید تھی کہ وہ شیخ نوری کو آئینی جمہوریت کی مخالفت سے باز رکھ سکیں گے ۔شیخ علی مدرس کے نام خط میں انہوں نے کہا:

ترجمہ: ”شیخ فضل الله نوری صاحب کیلئے ایک دوستانہ نصیحت اور ان کے لئے معافی کی سفارش

بسم الله الرحمن الرحیم ۔آپ کا خط ملا اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کا حال اچھا ہے اور آپ کیلئے دل سے دعا نکلی ۔تہران کے حالات کے بارے میں جو کچھ آپ نے میرے نام اپنے خط میں کہا اور جو خطوط آپ نے دوسرے احباب کو لکھے، ان کا میں نے بغور مطالعہ کیا ہے ۔

شیخ نوری نے جو سب سے الگ راستہ اختیار کیا ہے وہ بے محل ہے اور علما کیلئے صدمے کا باعث بنا ہے اور اس نے لوگوں کو بدتمیز بنا دیا ہے ۔وہ آبرو کھو چکے ہیں، اس حد تک کہ تہران کے عوام ان کو بہت بُرا بھلا کہہ رہے ہیں اور میرےاور باقی مراجع کے پاس دوسرے شہروں سے آنے والے خطوط میں بھی ان کے بارے ایسی ہی باتیں لکھی ہیں ۔لہذا ضروری ہے کہ ان کے بارے میں کوئی اقدام اٹھایا جائے تاکہ علما کی آبرو محفوظ رہے اور عوام کے جذبات ٹھنڈے ہوں ۔میں نے ان کے نام پہلے بھی کچھ دوستانہ نصائح روانہ کئے اور دوسروں نے بھی، اگرچہ انہوں نے تہدید اور سرزنش سے بھی کام لیا ۔امید ہے کہ وہ نادم ہوں گے اور دوبارہ ہم سے آ ملیں گے اور اپنے مقام و مرتبے کو محفوظ رکھیں گے ۔

میرے خیال میں لازم ہے کہ علما اور پارلیمان کے اراکین ان کے بارے میں چشم پوشی سے کام لیں اور ان کو اور ان کے ساتھیوں کو نرمی سے سمجھائیں، ایسا نہ ہو کہ انہیں مزید دور کر دیں ۔خدا ان کے گناہوں کو معاف کرے ۔ان حالات میں جس قدر ممکن ہو مفاہمت کی کوشش کرنا بہتر ہے ۔خدا کرے یہ مسئلہ جلد حل ہو ۔یہ معاملہ جتنا طول پکڑے گا اس قسم کا نفاق بڑھتا جائے گا ۔وقت کا تقاضا ہے کہ علما اور پارلیمنٹ اس مسئلے کے حل اور مقاصد کے حصول کیلئے ہمت سے کام لیں اور امام زمانؑ، کہ ہماری جانیں ان پر فدا ہوں، سے مدد و نصرت چاہیں ۔اس ناچیز نے بھی جہاں ذمہ داری محسوس کی، کوتاہی نہیں کی اور انشااللہ بعد میں بھی اپنی ذمہ داری سے گریز نہیں کروں گا ۔خدا آسانیاں پیدا کرے ۔

بندہٴ حقیر

محمد کاظم خراسانی “ [49]
البتہ بعد ازاں فروری 1908ء میں، انہوں نے شیخ فضل الله نوری کے اقدامات کو فساد اور حرام سے تعبیر کیا اور کچھ ہفتے بعد اس کو تہران سے نکال دینے کا حکم صادر فرمایا ۔انہوں نےمجتہدین سید محمد طباطبائی اور سید عبد الله بہبہانی کے استفسار پر کہا:

”چون نوری مخل آسائش و مفسد است، تصرفش در امور حرام است.“ [50]

ترجمہ:” نوری چونکہ فساد اور تکلیف کا موجب بنا ہوا ہے لہذا اس کا خمس استعمال کرنا حرام ہے ۔“

جب سید محمد طباطبائی اور سید عبدالله بہبہانی نے خط لکھا کہ نوری نے شاہ عبد العظیم کے مزار میں دھرنا دے دیا ہے اور وہاں سے علما اور جمہوریت پسندوں کے قتل عام کا فتویٰ دے کر اوباشوں کو قتل و غارت گری کی دعوت دے رہا ہے، تو آخوند خراسانی اور باقی دو مراجع نےلکھ بھیجا کہ:

”رفع اغتشاشات حادثہ و تبعید نوری را عاجلاً اعلام. “[51]

ترجمہ: ”فسادات پر جلد قابو پا کر نوری کو شہر بدر کر دیا جائے ۔“

اگرچہ نوری نے اپنے غنڈوں کی مدد سے اگست 1908ء میں نجف میں آخوند خراسانی اور ان کے ساتھیوں کو تنہا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن آخوند خراسانی نے 31 جولائی 1909ء کو نوری کو سزائے موت سے بچانے کی کوشش کی، جو ناکام ہوئی۔ [52] یہ ایسے وقت میں کیا جا رہا تھا جب ایرانی صوبے سیستان سے تعلق رکھنےو الے نوری گروپ کے مولوی علی (متوفی 1922ء) نے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ آئینی جمہوریت کی حمایت کرنے والا شخص مرجع نہیں ہو سکتا۔ [53] جمہوری تحریک کے خلاف مولوی علی کے فتوے کا متن اور لہجہ بہت افراطی ہے:

”جمہوری حکومت کافر ہے اور اس کے حامی مرتد ہو گئے ہیں ۔ان کا مال لوٹنا اور ان کو قتل کرنا شرعاً جائز ہے ۔“[54]

دوسری پارلیمنٹ قائم ہونے کے بعد پارلیمنٹ کے سپیکر سید حسن تقی زادہ (متوفی 1970ء) کی انتہا پسندانہ روش [55] کے مقابلے میں آخوند خراسانی کا لہجہ نرم ہے، حتیٰ کہ اس کو مفسد کہتے ہوئے بھی تکفیر نہیں کرتے اور صرف عہدے سے معزولی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔[56] تقی زادہ کی جماعت، فرقہ دموکرات ایران، مجتہد سید عبدالله بہبہانی کی 15 جولائی 1910ءکو شہادت میں ملوث سمجھی جاتی تھی۔

یہاں تک کہ آخوند خراسانی کے پارلیمنٹ کے حق میں لکھے گئے خطوط اور پارلیمنٹ قائم ہونے کے بعد بھیجے گئےمبارک باد کے پیغامات میں بھی تعادل ہے ۔وہ پارلیمنٹ کو ’مجلس محترم ملی‘ یا ’مجلس شورائے ملی‘ کہتے ہیں، اگرچہ بہت سے لوگ ’مجلس مقدس‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ [57] مزید یہ کہ ان کی سفارشات ہمیشہ فصیح و بلیغ ہوتی تھیں ۔یہ خط اس کی ایک اچھی مثال ہے جو 19اکتوبر 1908ء کو لکھا گیا:

”مکرر نوشتہ شدہ است کہ مجلس محترم ملی کہ اساسش بہ جہت رفع تعدیات استبداد و اعانہٴ مظلومین است، اعانت و ہمراہی از آن بر ہمہ لازم است و مخل و مفسد و موہن بہ مخالفت آن مخالف و محاد با امام عصر عجل الله فرجہ است، اعاذالله بلادہ و عبادہ.

حررّہ الاحقر الجانی محمد کاظم الخراسانی “

ترجمہ: ”جیسا کہ بارہا لکھا جا چکا ہے کہ قابل احترام پارلیمان کہ جس کی بنیاد آمریت کے ظلم کو ختم کرنے اور مظلوم لوگوں کی مدد کیلئے رکھی گئی ہے، اس کی مدد کرنا اور ساتھ دینا سب پر لازم ہے اور اس میں خلل ڈالنے یا کرپشن کرنے یا اس کی توہین کرنے والا امام زمان عجل الله فرجہ کا مخالف اور منکر ہے ۔الله امام مہدیؑ کے ملک اور غلاموں کو سلامت رکھے۔

بندہٴ حقیر محمد کاظم خراسانی“ [58]

محسن کدیور صاحب کی جمع کردہ دستاویزات کے مطابق آخوند خراسانی نےتحریک جمہوریت کیلئے انقلاب کا لفظ پہلی بار 6 ستمبر 1909ء کو استعمال کیا، جب گیلان سے آنے والی کمک اور بختیاری قبائل کے لوگوں کی آمد کے بعد تہران پر جمہوریت پسندوں کا دوبارہ قبضہ ہوا۔ [59] گویا جہاں وہ اس بات سے خوش تھے کہ پارلیمنٹ کو بحال کر لیا گیا ہے وہیں ایسا ممکن ہے کہ وہ سیاسی عمل کے ہاتھ سے نکل جانے کے خدشے سے بھی دو چار ہوں ۔

ان کی اعتدال پسندی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب کچھ لوگوں نے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے شامل کی گئی شقوں پر اعتراض کیا تو آخوند خراسانی نے انھیں یاد دلایا کہ یہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنائیں ۔انہوں نے کہا:

”بسم الله الرحمن الرحیم. ایذاء و تحقیر طایفہ ی زردشتیہ و سایر اہل ذمہ کہ در حمایت اسلام اند حرام، و بر تمام مسلمین واجب است کہ وصایای حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ الطاہرین را در حسن سلوک و تالیف قلوب و حفظ نفوس و اعراض اموال ایشان کما ینبغی رعایت نمایند و سر مویی تخلف نکنند. ان شاء اللّہ تعالیٰ

من الاحقر محمد کاظم خراسانی “

ترجمہ: ”اسلام کی حمایت میں رہنے والے زرتشتیوں اور دوسرے ذمیوں کو تکلیف پہنچانا یا ان کی بے عزتی کرنا حرام ہے، اور سب مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان سے حسن سلوک، ان کی تالیف قلبی اور ان کی جان و مال کے تحفظ کے سلسلے میں حضرت خاتم النبیینﷺ کی وصیتوں کے پابند رہیں اور بال برابر انحراف نہ کریں ۔، انشاءاللہ ۔

بندہٴ حقیر محمد کاظم خراسانی“ [60]

البتہ اس بیان کے بہت مختصر و جامع ہونے کی وجہ سے یہ اندازا لگانا تھوڑا مشکل ہے کہ وہ اقلیتوں کیلئے آئین میں کس مقام کے قائل تھے اور کیا وہ مجتہد سید محمّد طباطبائی کی طرح مسلمانوں اور غیر مسلموں میں بنیادی انسانی برابری کے قائل تھے یا نہیں؟

تمام ماخذ قابل دسترس نہ ہونے کی وجہ سے ہنوز اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آیا آخوند خراسانی ہمیشہ تحریک جمہوریت کی حمایت کرتے تھے اور کیا وہ اس سلسلے میں جدوجہد کرنے والی سبھی قوتوں کے حامی تھے؟ ہم نے پہلے کسی مقام پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ذاتی ڈائری بعض اوقات بڑی مفید ثابت ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اگرچہ عوام میں ثقۃ الاسلام تبریزی آئینی جمہوریت کی تحریک کے بڑے پرجوش حامی تھے، لیکن اپنی ذاتی ڈائری میں وہ اپنے کچھ شکوک و تحفظات لکھا کرتے تھے۔ [61] وہ خاص طور پر ستار خان اور اس کے مجاہدین کی پیدا کردہ بے نظمی سے کافی پریشان تھے۔ [62] جہاں تک آخوند خراسانی کا تعلق ہے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نہ تو بختیاری قبائل کی مدد سے اصفہان اور تہران کا فتح ہونا [63] اور نہ ہی تبریز کا ستار خان اور باقر خان کی رہنمائی میں لڑنے والے مجاہدین کے ہاتھوں میں جانا، نہ ہی غیر مسلم اقلیتوں کی طرف سے کئے جانے والے مطالبات، یہ سب عوامل اتنے اہم نہ تھے کہ آخوند خراسانی انہیں تحریک کے رخ کے تعین میں فیصلہ کن سمجھتے ۔

(عرض مترجم: اہلیان ہمدان کے نام خط میں آخوند خراسانی لکھتے ہیں:

”عجبا چگونہ مسلمانان، خاصہ‌ی علماء ایران، ضروری مذہب امامیہ را فراموش نمودند کہ ‏سلطنت مشروعہ آن است کہ متصدی امور عامہ‌ی ناس و رتق و فتق کارہای قاطبہ‌ی مسلمین و فیصل کافہ‌ی مہام بہ دست ‏شخص معصوم و موید و منصوب و منصوص و مأمور مِن اللہ باشد مانند انبیاء و اولیاء (ع) و مثل خلافت ‏امیرالمومنین (ع) و ایام ظہور و رجعت حضرت حجت (ع)، و اگر حاکم مطلق معصوم نباشد، آن سلطنت غیرمشروعہ است، ‏چنان‌کہ در زمان غیبت است و سلنطت غیرمشروعہ دو قسم است، عادلہ، نظیر مشروطہ کہ مباشر امور عامہ، عقلا و متدینین ‏باشند و ظالمہ و جابرہ است، مثل آنکہ حاکم مطلق یک نفر مطلق‌العنان خودسر باشد. البتہ بہ صریح حکم عقل و بہ فصیح ‏منصوصات شرع «غیر مشروعہ‌ی عادلہ» مقدم است بر «غیرمشروعہ‌ی جابرہ». و بہ تجربہ و تدقیقات صحیحہ و غور ‏رسی‌ہای شافیہ مبرہن شدہ کہ نُہ عشر تعدیات دورہ‌ی استبداد در دورہ‌ی مشروطیت کمتر می‌شود و دفع افسد و اقبح بہ ‏فاسد و بہ قبیح واجب است. چگونہ مسلم جرأت تفوہ بہ مشروعیت سلطنت جابرہ می‌کند و حال آنکہ از ضروریات مذہب ‏جعفری غاصبیت سلطنت شیعہ است.“ حوالہ: سیاست نامۂ خراسانی، صفحات 214، 215

ترجمہ: ”میں حیرت زدہ ہوں کہ مسلمانوں، اور خصوصاً بعض ایرانی علما، نے شیعہ مسلک کے اس بنیادی عقیدے کو کیسے فراموش کیا ہے جس کے مطابق شرعی طور پر حکومت کرنے، عوام کے امور کو چلانے، مسلم معاشرے کے مسائل کے حل کرنے اور اہم فیصلے کرنے کا حق صرف اور صرف معصومؑ کا ہے کہ جو اللہ کی طرف سے منصوب و منصوص و مامور و تائید یافتہ ہو، جیسا کہ انبیاؑء و اولیاؑء کے زمانے میں تھا یا امیر المومنین ؑ کی خلافت کے وقت تھا اور جیسا حضرت حجتؑ کے ظہور و رجعت کے زمانے میں ہو گا۔ اگر ولایتِ مطلقہ معصوم کے پاس نہ ہو تو یہ غیر شرعی بادشاہت ہو گی۔ چونکہ یہ غیبت کا زمانہ ہے تو یہاں دو قسم کی غیر شرعی حکومتیں ہو سکتی ہیں: پہلی انصاف پر مبنی جمہوریت کہ جس میں عوام کے معاملات متعدد دین دار عقلمندوں کے ہاتھ میں ہوں، اور دوسری ظلم و جبر کی حکومت جس میں ایک خود سر شخص ولیٴ مطلق بن بیٹھے۔ پس عقل اور شرعی نصوص کے اعتبار سے غیر شرعی حکومتوں میں جو عادلانہ ہو اسے ظالمانہ حکومت پر برتری حاصل ہو گی۔ انسانی تجربے اور دقیق اور تسلی بخش غور و فکر سے واضح ہو چکا ہے کہ جمہوریت استبداد کے ظلم میں کمی لاتی ہے اور کمتر برائی کو زیادہ برائی پر فوقیت دینا واجب ہے۔ ایک مسلمان کیسے جابر سلطان کی حکومت کو شرعی کہنے کی جرات کر سکتا ہے جبکہ سلطنت کو غصب شدہ سمجھنا مذہبِ جعفری کی ضروریات میں سے ہے؟“ )

نوٹ: یہ سلسلہٴ مضامین پروفیسر ڈینس ہرمن کے مقالے کا اردو ترجمہ ہے جو اقساط کی شکل میں پیش کیا جاۓ گا-


ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں