آخوند خراسانی اور ایران کی تحریک جمہوریت….! قسط چہارم (حمزہ ابراہیم)

آخوند خراسانی بطور مرجع

آخوند خراسانی کا نسبتاً معتدل رویہ دو عوامل کی بنیاد پر قابل توجیہ ہے ۔ایک تو یہ کہ وہ کئی سالوں سے نجف میں رہ رہے تھے اور ایران کے واقعات کے عینی شاہد نہ تھے ۔ایران کے بادشاہ محمد علی شاہ قاجار اور شیخ فضل الله نوری، دونوں نے ان کے خلاف اس نکتے کو اٹھایا کہ اس بنیاد پر وہ ایران کے سیاسی معاملات پر رائے دینے کے اہل نہیں ہیں۔ [64] دوسری وجہ جو اس سے بھی اہم ہے یہ ہے کہ آخوند خراسانی اہل تشیع کے سب سے بڑے مرجع تقلید تھے ۔اس وجہ سے انہوں نے ایسا توافق پیدا کرنے والا بیانیہ ترتیب دینے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں جمہوری قوتوں میں اتحاد قائم ہو اور جو اختلاف پیدا کرنے کا سبب نہ بنے۔ جس چیز کو اولیت حاصل تھی یہ تھی کہ وہ شرعی ذمہ داری کا تعین کرنے والی قوت تھے، ایسا شخص جو ایران کے ہر علاقے میں آئین کے حامیوں میں سے کچھ کی تائید کر کے انہیں ہم وطنوں کی نگاہ میں معتبر بنا سکتا تھا ۔

عتبات کے علما ، اور خاص طور پر مرجع اعلیٰ، کو ایرانی عوام اور بالخصوص عام مولویوں میں دیانت داری کا نمونہ سمجھا جاتا تھا اور ان کی بات کو بہت اہمیت دی جاتی تھی ۔ثقۃ الاسلام تبریزی کے بیانات اس نکتے کی وضاحت کرتے ہیں کہ نجف کے مراجع اور بالخصوص آخوند خراسانی کے گرد کس قسم کا تقدس کا ہالہ موجود تھا ۔ثقۃ الاسلام تبریزی جہاں ایران کے عام مولویوں پر تنقید کرتے ہیں وہیں عتبات کے علما کو کامل انسان قرار دیتے ہیں ۔وہ علما کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں: پہلے وہ قابل اعتماد اور فساد سے پاک لوگ جن کی تعداد بہت کم ہے اور دوسرے وہ جاہل مولوی جن کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔پہلے گروہ میں وہ لوگ ہیں جنہیں وہ حججِ اسلامِ عتبات کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔اپنی کتاب ”لالان“ میں وہ ان کیلئے آیت الله کا لقب بھی استعمال کرتے ہیں ۔دوسرا گروہ وہ سادہ ملا ہیں جو ایران میں رہتے ہیں، ان کیلئے وہ بہت تلخ لہجہ استعمال کرتے ہیں ۔مزید یہ کہ ثقۃ الاسلام تبریزی یہ سمجھتے ہیں کہ مومنین کو فقہی مسائل کے علاوہ سیاسی مسائل میں بھی نجف کے مراجع کی پیروی کرنی چاہیے ۔وہ اس نکتے کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

”جسے اپنے نفس پر قابو ہے، جو اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے، ذاتی خواہشات کی پیروی کے بجائے مولا کی اطاعت کرتا ہے، وہی اس قابل ہے کہ عوام اس کو اپنے لئے معیار قرار دیں ۔“ [65]

ایک اور جگہ کہتے ہیں:

”ہم نے بھی، ہم جمہوریت پسند لوگوں نے مراجع کی اطاعت میں سر تسلیم خم کر لیا ہے ۔“ [66]

نجف کے بزرگ فقہا کی اطاعت ثقۃ الاسلام تبریزی سمیت بہت سے لوگوں کی نظر میں واجب تھی ۔اس موضوع پر انہوں نے کہا:

”امامؑ کی غیبت میں ہم صراحت سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی بنیادوں کا تحفظ ممکن نہیں مگر یہ کہ اس آب و خاک کا تحفظ کیا جائے جسے ہم مادرِ وطن کہتے ہیں ۔ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اس ظاہری طاقت (مرجعیت)سے مدد لیں، جیسا کہ اب تک کیا گیا ہے ۔“ [67]

ایک اور جگہ کہتے ہیں:

”آئیے اس مفروضے پر بات کرتے ہیں کہ آئین شریعت سے متصادم ہے ۔اس قسم کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں کیوں کہ عتبات کے حجج اسلام، جو آج تمام شیعوں کے مرجع و ملجا ہیں، نے آئینی جمہوریت کے لزوم میں بڑے واضح فتوے دئیے ہیں ۔تحریری حمایت کے علاوہ انہوں نے عملی حمایت بھی کی ہے ۔وہ آئین کو شوکتِ اسلام کا پشتیبان سمجھتے ہیں ۔“ [68]

بہت سے دوسرے قانون کی حکومت کے حامی علما کی طرح ثقۃ الاسلام تبریزی بھی پارلیمنٹ کے قوانین کی توثیق کیلئے تہران کے پانچ مجتہدوں کی کمیٹی بنانے کے خلاف تھے ۔ان کے مطابق:

”ہمیں ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جنہیں سب قبول کرتے ہوں اور جن کے پاس سب کے اعتماد کی طاقت ہو ۔یہ لطیف معاملات عتبات کے سپرد کرنے چاہئیں اور وہاں موجود شخصیات جو کہیں وہ ہر ایرانی قبول کرے گا ۔ ۔ ۔آج عوام کے نمائندے اپنی نمائندگی کی ذمہ داریوں کے بارے میں حساس ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ملکی آئین کو پانچ لوگوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا ۔ہمارے پاس اس بات کا کوئی حق نہیں کہ ہم حکومت تہران کے چار یا پانچ ملاؤں کے حوالے کر دیں ۔“ [69]

ساتھ ہی ثقۃ الاسلام تبریزی اس بات پر بھی افسوس کرتے ہیں کہ آخوند خراسانی ایران آنے کے بجائے نجف میں رکنا زیادہ پسند کرتے ہیں:

”عتبات کے حجج اسلام کا مقصد بد نظمی، ظلم، وسائل کے ضیاع اور قومی اضطراب کو روکنا ہے، انہیں نہ تو دولت کا لالچ ہے نہ ہی اقتدار کی ہوس، ان کا دامن ہر دھبے سے پاک ہے ۔اب جو مصائب یہاں ہمیں درپیش ہیں ان کا انہیں پوری طرح ادراک نہیں ہو پاتا تو اس کی وجوہات صاف ظاہر ہیں: وہ دار الحکومت سے دور ہیں اور ان تک کم خبریں پہنچتی ہیں ۔“ [70]

یہ بات قابل فہم ہے کہ یہ جذبات قانون کی حکومت چاہنے والے اکثر لوگوں میں پائے جاتے تھے جو نجف کے مراجع کی طرف سے زیادہ بڑے کردار کی امید رکھتے تھے ۔بظاہر بیسویں صدی عیسوی کے آغاز پر تہران میں بارہ ایسے علماء تھے جنہیں مجتہد سمجھا جا سکتا تھا ۔ان بارہ میں شیخ فضل الله نوری واحد شخص تھا جو باقاعدگی سے درس بھی دیتا تھا ۔[71] شہر کے عوام عتبات کے مراجع کے ساتھ ساتھ شہر کے کسی مجتہد کی بھی پیروی کرتے تھے ۔تحریکِ جمہوریت کے آغاز پر تہران میں سب سے زیادہ مقلد عمر رسیدہ مرجع آیت الله مرزا محمد حسین تہرانی کے تھے، [72] اور چونکہ وہ آخوند خراسانی کے بہت قریب تھے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ 1908ء میں ان کی رحلت کے بعد تہران میں آخوند خراسانی کی تقلید نے رواج پایا ۔

آخوند خراسانی نے جمہوری جدوجہد کرنے والی کئی جماعتوں اور تنظیموں کی حمایت کی، ان میں گیلان کی انجمنِ فاطمیہ، [73] تبریز کی انجمنِ ایالاتی، استنبول کی انجمنِ سادات [74] اور بوشہر کی انجمن شامل ہیں ۔[75] پارلیمنٹ کے معطل کئے جانے کے بعد جب ایران میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تو آخوند خراسانی نے جمہوری قوتوں کے نام پیغام میں کہا کہ وہ تبریز کی انجمن ایالاتی کو عارضی پارلیمان کا درجہ دے دیں ۔[76] اس عمل سے آذربائیجان کی جمہوری تحریک کو تقویت مل سکتی تھی ۔قاجار سلطنت کے آغاز سے ہی تبریز اصلاح پسندی کی طرف سب سے زیادہ مائل تھا ۔[77] شہر کی آبادی کا تناسب، [78] اس کی نسبتاً اچھی اقتصادی حالت، [79] اس کا جغرافیائی طور پر روسی اور عثمانی سلطنتوں کے قریب ہونا، 1834ء میں محمد شاہ قاجار کی تخت نشینی سے پہلے تک اہم ممالک کے سفارت خانوں کا اس شہر میں ہونا، اور تحریکِ جمہوریت کے دوران شہر میں کچھ جدید تعلیمی اداروں کے وجود میں آنے جیسے عوامل نے دوسرے شہروں کی نسبت تبریز کو ایک غیر معمولی جگہ بنا دیا تھا ۔9 نومبر 1908ء کو بھیجے گئے متعدد پیغامات میں بادشاہ محمّد علی شاہ قاجار کو ٹیکس دینے سے عوام کو منع کرنے کے بعد جولائی 1909ء میں آخوند خراسانی نے عوام سے کہا کہ وہ اپنا ٹیکس تحریکِ جمہوریت سے وابستہ مقامی انجمنوں کو دیں ۔[80] البتہ اس بات کا اندازا لگانا مشکل ہے کہ ان کے اس بیان پر کس قدر عمل ہوا ۔

1911ء میں روس کے حملے کے بعد آخوند خراسانی نے ملک کو جہاد کیلئے تیار کرنے کیلئے بھی انجمن کی حمایت کی ۔مزید یہ کہ انہوں نے اپنے ایک قریبی فرد شیخ اسد الله مامقانی کو استنبول میں انجمنِ سادات سے اظہار یکجہتی کیلئے بھیجا تاکہ وہ ان کے اہداف کیلئے عتبات کے مرجع تقلید کی حمایت کا اظہار کریں ۔[81]

آخوند خراسانی نے ایران کی کئی معاصر شخصیات کی حمایت بھی کی، جن میں مجتہد عبد الحسین لاری شامل ہیں، [82] جن کی حمایت کیلئے انہوں نے 1909ء میں جنوبی علاقوں کے عوام کو دعوت دی، اور مجتہد شیخ ابراہیم زنجانی [83] کہ جو 1907ء میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور جو 31 جولائی 1909 ء کو شیخ فضل الله نوری کو قتل و فساد کے جرم میں سزائے موت سنانے والی عدالت کا حصہ تھے ۔[84]شیخ زنجانی کے نام لکھا گیا آخوندخراسانی کا خط، جو شائع بھی ہوا، کافی دلچسپ ہے ۔آخوند خراسانی نے انہیں انتخاب جیتنے پر مبارک باد دی اور ملی امور میں اصلاح کیلئے ان کے مصمم ارادے کو سراہا، اور ساتھ ہی یہ کہا کہ وہ مجتہد سید محمّد طباطبائی کی اتباع کریں ۔1911ء کے موسم گرما میں آخوند خراسانی نے متعدد گروہوں کے نام کئی خطوط لکھے ۔ان میں قبائلی سردار، [85]دوسری پارلیمان کے ارکان، [86] قزوین کے عوام، [87] اور تہران کے لوگ [88] شامل ہیں ۔اس دوران انہوں نے استرآباد کے علماء [89] کے نام بھی خط لکھا اور ملک کے تمام مدارس کے نام بھی خط لکھا جس میں انہیں آپس میں متحد رہنے کی تلقین کی [90] ۔یہ خطوط ہمیشہ مختصر ہوتےتھے جن کا مقصد تحریکِ جمہوریت کے اہداف کا ایک مختصر تعارف کروانے اور اس کو شرعی اعتبار سے جائز قرار دینے کے بعد سب سماجی گروہوں کو اس کی حمایت پر ابھارنا ہوتا تھا ۔ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ گروہ تحریکِ جمہوریت کے مستقبل کا الگ الگ تصور رکھتے ہوں اور ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہوں ۔مثال کے طور پر ہم یہ جانتے ہیں کہ جب دسمبر 1911ء میں روسی افواج اردبیل میں داخل ہوئیں تو وہاں دو سیاسی جماعتوں کے کارکنان میں تصادم ہوا ۔[91] ان میں سے ایک گروہ نعمتی نامی شخص کے زیر اثر تھا اور دوسرا حیدری نامی شخص کے زیر اثر تھا ۔

آخوند خراسانی کے خطوط نہایت مختصر ہونے کے باوجود بہت اثر رکھتے تھے اور سبھی جمہوری قوتیں اپنے اقدامات کے جواز کے طور پر انہیں ہی پیش کرتی تھیں ۔ایک مثال کے طور پر بختیاری قبیلے کے رہنما سردار اسد کے ایک خط کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس وقت تک جمہوری تحریک کا ساتھ نہیں دیا جب تک عتبات کے مراجع اور خاص طور پر آخوند خراسانی کے اس اعلان کی خبر ان تک نہ پہنچی کہ آئینی جمہوریت ہی وہ واحد چیز ہے جو ایران کو مغربی تسلط سے محفوظ رکھ سکتی ہے:

”میں سب کو یاد دلانا چاہوں گا کہ بختیاری قبائل کے سردار حکومت اور سلطنت کے بھوکے نہیں ہیں اور اپنی زندگی سے مطمئن ہیں ۔میں علاج اور سیر و تفریح کیلئے یورپ گیا تھا لیکن دس ماہ برابر بادشاہ کے رویّے اور اس کے دربار کے بارے میں خبریں ملتی رہیں اور ایران کو بچانے کے سلسلے میں جمہوریت کے بارے میں یورپی ساتھیوں کے علاوہ مراجعِ اسلام کی نصیحتیں بھی مجھ تک پہنچیں، تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے مذہب اور وطن کیلئے جو کر سکا کروں گا، اور مجھے کوئی ڈرا نہیں سکتا نہ ہی روک سکتا ہے ۔“ [92]

بختیاری سردار جو کر رہے تھے اس کی محض یہی وجہ نہ تھی کہ عتبات کے علماء نے ایک سیاسی موقف اپنایا تھا، لیکن پھر بھی اس بات کا ملاحظہ ہونا چاہئیے کہ سردار اسد اپنے اقدامات کی توجیہ کرنے کیلئے آخوند خراسانی اور ان کے حلقے کا حوالہ دینے میں نہیں ہچکچائے۔

ایران میں آخوند خراسانی کے ساتھیوں اور شاگردوں کا ایک بڑا نیٹ ورک بھی ان کی مدد کو موجود تھا ۔خراسان میں، جو ان کا آبائی علاقہ بھی تھا اور جہاں جمہوریت مخالف انجمنِ رضویہ بہت اثر و رسوخ رکھتی تھی، آخوند خراسانی تحریکِ جمہوریت کا پلڑا بھاری کرنے میں کامیاب رہے ۔شیخ ذبیح الله مجتہد قوچانی (متوفی 1917ء) جو جمہوری ریاست کے حامیوں میں سے تھے، آخوند خراسانی کا شاگرد ہونے کی وجہ سے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ان کی ایک اہم کامیابی آذربائیجان کے طلاب کو جمہوریت کی قافلے میں شامل کرنا تھی ۔شیخ ذبیح الله قوچانی اور سید اسد الله قزوینی (متوفی 1920ء)، دونوں مجتہد آیت الله العظمیٰ مرزا حسن شیرازی کے بھی شاگرد رہ چکے تھے، تحریک کی خبریں روزانہ امام علی رضاؑ کے حرم میں سناتے تھے، اور اسی طرح خراسان کے عوام کے مطالبات بھی پیش کیا کرتے تھے۔ [93] ان دونوں حضرات کو مزید کمک فراہم کرنے کیلئے آخوند خراسانی نے 1908ء میں اپنے بیٹے مرزا محمد خراسانی (متوفی 1937ء)، المعروف مرزا آقا زادہ، کو مشہد بھیجا تاکہ وہ وہاں آئینی جمہوریت کی تحریک کو قوت فراہم کریں ۔ایسا لگتا ہے کہ 23 جون 1908ء میں پارلیمنٹ کے پہلی بار معطل کئے جانے کے بعد جو مصائب جمہوری قوتوں پر ٹوٹے ان سے مرزا آقا زادہ زندہ سلامت نکل آئے ۔

اسی دوران اصفہان میں، جسے بختیاری قبائل نے جنوری 1909ء میں صمصام السلطنہ کی قیادت میں فتح کر لیا تھا، مذہبی رہنما آقا نجفی (متوفی 1914ء) نے آخوند خراسانی کی حمایت کا اظہار شروع کر دیا کیوں کہ ان کے خیال میں پارلیمنٹ کا احیاء ہی مغربی طاقتوں کے نفوذ سے نبٹنے کا بہترین طریقہ تھا ۔[94]

نوٹ: یہ سلسلہٴ مضامین پروفیسر ڈینس ہرمن کے مقالے کا اردو ترجمہ ہے جو اقساط کی شکل میں پیش کیا جاۓ گا-


ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں