آخوند خراسانی اور ایران کی تحریک جمہوریت…! قسط ششم (حمزہ ابراہیم)

آخوند خراسانی اور قاجار حکمران

آخوند خراسانی سابقہ بادشاہ مظفر الدین شاہ قاجار (متوفی 3 جنوری 1907ء) کا ذکر تشکر کے ساتھ کرتے تھے ۔انہوں نے ان کے نام کئی خطوط میں اس بات کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے تحریکِ جمہوریت کی حمایت کر کے پہلی پارلیمنٹ کے قیام کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ [131] لیکن آخوند خراسانی نے ان کے نام اپنے خطوط میں دربار کی مالی خرد برد اور بیرونی قوتوں، بالخصوص روس، پر تکیہ کرنے پر تنقید بھی کی ۔آخوند خراسانی کیلئے شاہی خاندان ایک علامت کے طور پر قوم کی شناخت اور شوکتِ اسلام کے اظہار کا ذریعہ تھا۔ [132] یہ احساس بہت سے دیگر جمہوریت خواہ علماء، بالخصوص آخوند خراسانی کا ساتھ دینے والے نجف کے دوسرے مراجع اور ان کے پیروکاروں، بلکہ ایران کے اندر ثقۃ الاسلام تبریزی جیسے لوگوں میں بھی پایا جاتا تھا۔ [133] ثقۃ الاسلام تبریزی نے کہا کہ چونکہ آئین کا تحفہ مظفر الدین شاہ قاجار نے خود ہی دیا ہے تو بادشاہ کے منصب کو (علامت کے طور پر) باقی رکھنے کے سوا آئین کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے:

”مرزا حسین واعظ [134] نے کہا ہے کہ مظفر الدین شاہ قاجار نے دو نشانیاں چھوڑی ہیں، ایک آئین اور دوسری (علامتی)بادشاہت، اور دونوں ساتھ ساتھ ہیں ۔جو لوگ آئین کو مسترد کرتے ہیں انہیں دوسری وراثت کو بھی چھوڑنا ہو گا ۔“ [135]

قاجار سلطنت میں علماء اور بادشاہ کے درمیان طاقت کی تقسیم کا ایک غیر کتبی معاہدہ تھا ۔بادشاہ کے اقتدار کو خدا یا امام زمانؑ کی طرف سے عطا کردہ طاقت سمجھا جاتا تھا، اس سے یہ سمجھ آتی ہے کہ علماء نے قاجار سلطنت کے جواز پر سوال کیوں نہیں اٹھایا [136] چنانچہ صرف کچھ ہی علماء نے بادشاہت کے ادارے کو شریعت کے منافی جانا، جن میں شیخ حسین بوشہری اور عبد الحسین لاری شامل ہیں۔ [137]

تاہم آخوند خراسانی اور آخری قاجار بادشاہ محمد علی شاہ کے درمیان تعلقات جلد بگڑ گئے ۔ان کے درمیان خط و کتابت کے سلسلے کا جائزہ لینے سے ایسے لگتا ہے جیسے دونوں دوسرے کو بہرا سمجھتے ہوں، کیوں کہ ہر ایک کا کہنا ہے کہ وہ آئینی جمہوریت، وطن کے تحفظ اور اسلام کیلئے کام کر رہا ہے ۔پہلی پارلیمنٹ کے بند ہونے سے پانچ دن قبل، 18جون 1908ء کو، بادشاہ نے کہا کہ اگرچہ وہ پوری قوت کے ساتھ پارلیمانی جمہوریت کا حامی ہے لیکن اس کیلئے ملک کی خراب حالت کو سدھارنا اور اس کا دفاع کرنا زیادہ اہم ہے، جو اس کی بنیادی ذمہ داری ہے تاکہ اس چھ ہزار سالہ سلطنت کو بچا سکے اور سب سے بڑھ کر اسلام کا دفاع کر سکے جو سیاسی جماعتوں کی دین دشمنی اور انتہا پسندوں کی وجہ سے خطرے میں پڑ گیا ہے ۔اس نے پسماندہ اور دور افتادہ علاقے میں بیٹھنے والے آخوند خراسانی اور ان کے ارد گرد موجود افراد کی اہلیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا:

”مجھے تعجب ہے کہ آپ حضرات اسلام اور وطن کو درپیش خطرات کو کیوں سمجھ نہیں پا رہے؟“ [138]

جب آخوند خراسانی نے عوام سے کہا کہ اس کے اقتدار کو قبول نہ کریں اور ریاست کی اطاعت کرنا چھوڑ دیں تو بادشاہ نے تعجب کا اظہار کیا کہ 2 نومبر 1908ءکو بھیجے گئے خط میں وہ کہہ چکے تھے کہ وہ اسلام اور وطن کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔[139] کچھ دن بعد 9 نومبر 1908ءکو آخوند خراسانی نے محمد علی شاہ قاجار کی حکومت کو پہلی بار سفاک اور جابر قرار دیا اور ایرانیوں کو حکم جہاد دیتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کو ٹیکس دینا بند کر دیں:
”بہ عموم ملت ایران، حکم خدا را اعلام می داریم، الیوم ہمت در دفع این سفاک جبار، و دفاع از نفوس و اعراض و اموال مسلمین از اہم واجبات، و دادن مالیات بہ گماشتگان او از اعظم محرمات، و بذل جہد و سعی بر استقرار مشروطیت بہ منزلہ جہاد در رکاب امام زمان ارواحنا فداہ، و سر موئی مخالفت و مسامحہ بہ منزلہ خذلان و محاربہ با آن حضرت صلوات الله و سلامہ علیہ است. اعاذ الله المسلمین من ذلک. ان شا الله تعالیٰ الاحقر عبدالله المازندرانی، الاحقر محمد کاظم الخراسانی، الاحقر نجل الحاج میرزا خلیل“

ترجمہ: ”ملتِ ایران کیلئے حکمِ خدا بیان کرتے ہوئے کہنا چاہیں گے کہ آج اس سفاک و جبار کو ہٹانے کیلئے کوشش کرنا اور مسلمانوں کی جان و مال و آبرو کی حفاظت واجب ہے ۔اس کے کارندوں کو ٹیکس دینا حرام ہے ۔آئینی جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد اور کوشش امام زمانؑ، کہ ہماری جانیں ان پر فدا ہوں، کی رکاب میں جہاد کرنے کے مترادف ہے، اور اس ہدف کی مخالفت یا اس سے بال برابر انحراف آنحضرتؑ سے جنگ کرنے یا ان کا ساتھ چھوڑنے کے برابر ہے ۔خدا مسلمانوں کو اس گناہ سے بچائے ۔ان شا ءالله

بندہٴ حقیر عبد الله مازندرانی، بندہٴ حقیر محمد کاظم خراسانی، بندہٴ حقیر حاجی میرزا خلیل “[140]

وہ اس موقف پر ڈٹ گئے اور کئی مواقع پر اس کا اعادہ کیا، شاید اس وجہ سے کہ ایران میں یہ افواہ اڑا دی گئی تھی کہ ان کا فتویٰ جعلی تھا۔ [141] جمہوری قوتوں کے ایران فتح کرنے کے کچھ عرصے بعد آخوند خراسانی اور بادشاہ کے درمیان پھر خط و کتابت ہوئی۔ [142] شاہ نے زور دیا کہ وہ تو ہمیشہ سے آئینی جمہوریت کا حامی ہے اور وہ صرف اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ لڑ رہا تھا ۔ان خطوط میں وہ بار بار یہ کہتا ہے کہ آذربائیجان میں امن قائم ہونے کے بعد وہ پارلیمنٹ کو بحال کر دے گا۔ [143] آخر کار 18جولائی 1909ء کو اس کو تخت سے اتار دیا گیا۔

آخوند خراسانی اور آیت الله عبدالله مازندرانی نے عثمانی سلطان محمد پنجم (متوفی 1918ء) سے بھی مدد کی اپیل کی، اور اس کو مسلم دنیا کا اہم ترین سلطان بھی قرار دیا ۔عثمانی حکومت کو جائز قرار دئیے بغیر وہ اس کو قاجار حکومت سے زیادہ انصاف پسند سمجھتے تھے۔ مئی 1909ء کو لکھے گئے پیغام میں، جب ایرانی پارلیمنٹ بند تھی، انہوں نے ترک سلطان کو خلیفہ کہہ کر خطاب کیا اور اپنے دستخط میں علمائے جعفریہ لکھ کر اپنے مسلک کا اظہار بھی کیا۔ [144] عثمانی سلطان کے نام ایک اور خط میں ہمیں امیر المومنین کا خطاب بھی ملتا ہے لیکن یہ لقب بعد میں کسی نے لکھا ہے۔ [145] عتبات کے مراجع شیعی اکثریت والے ایران پر عثمانی خلیفہ کی حکومت کے خواہاں نہ تھے لیکن یہ عمل ان کا قاجار سلطنت کو رد کرنے کا ایک اظہار تھا ۔یہ بیان جمال الدین افغانی (متوفی 1897ء) کی مسلمانوں سے کئے گئے اس مطالبے کا تسلسل لگتا ہے جس میں انہوں نے سب مسلمانوں سے سلطان عبدالحمید دوم (متوفی 1909ء) کو خلیفہ تسلیم کرنے کی درخواست کی تھی۔ حمید دوم نے مسلمانوں میں اتحاد کو عثمانی سلطنت کی حکمت عملی کا ایک اہم ستون بنا لیا تھا اور اپنی سلطنت میں رہنے والے شیعوں سے مفاہمت کی راہ اپنائی تھی۔ [146]

مارچ 1910ء میں آخوند خراسانی نے نوجوان شہزادے احمد شاہ قاجار (متوفی 1930ء) کے نام عربی میں ایک خط لکھا جس میں اسے کچھ نصیحتیں کیں، جن میں زیادہ تر ملک کو جدید بنانے کے سلسلے کے جاری رہنے کی ضرورت، آئینی جمہوریت کے تحفظ، مغربی فوجی خطرے سے دفاع اور معاشرے میں عدل و انصاف کو یقینی بنانے کے بارے میں تھیں ۔انہوں نے اسے یہ بھی کہا کہ وہ جتنا ہو سکے عوام کا خیال رکھے۔ [147] 31 مئی 1910ء کو احمد شاہ قاجار کے نام لکھے گئے ایک اور مختصر خط میں آخوند خراسانی نے پھر سے اصلاحات اور ترقی پر زور دیا۔

نوٹ: یہ سلسلہٴ مضامین پروفیسر ڈینس ہرمن کے مقالے کا اردو ترجمہ ہے جو اقساط کی شکل میں پیش کیا جاۓ گا-


ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں