لاہور بار کا ہیرا…! (شیخ نعیم کمال)

میرے معزز قارئین اور راقم نے بچپن سے مختلف ضرب المثال اور ہمت آویز اقوال سن رکھے ہونگے جیسے ہمت مرداں مدد خدا، ہار نہ ماننے والے ہی فاتح ہوتے ہیں، ایک ہارے ہوئے بادشاہ نے چیونٹی کے سو بار گر کر دیوار پر چڑھنے سے ہمت لی اور فتحیاب ہوا، کامیابی کا راز یقین کامل میں پنہاں ہے، کامیابی کوتاہ دل والوں کا زیور نہیں اور جیسے بلب بنانے والے سائنس دان سے کسی نے سوال کیا کہ جناب آپ 1000 بار ناکام ہوئے مگر آخر کار آپ نے بلب ایجاد کر ہی لیا، تو اس سائنس دان کا جواب تھا کہ کون کہتا ہے کہ میں ناکام ہوا بلکہ میں نے ناکام ہونے کی ایک ہزار وجوہات سیکھ لیں۔ احباب من، غرضیکہ یقین محکم، بڑا دل، ہمت و مردانگی اور عقل و دانش جب یکجا ہو جائیں تو کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔

جی ہاں راقم کے مشاہدے میں کچھ ایسی ہی صفات کی حامل شخصیت اور لاہور بار ایسوسی ایشن کا فخر، میر ی مراد، جناب ایڈووکیٹ منور مسعود ہیرا ہیں جنہوں نے ماہ اگست 2021 کی عدالتی تعطیلات میں ایک ناممکن کام کو ممکن بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کر کے، لاہور بار ایسوسی ایشن، صوبہ پنجاب، گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ دراز ہمتی کچھ یوں کہ موصوف کے پاس سال 1997 ماڈل، MITSUBISHI کمپنی کی صرف 660CC چھوٹی گاڑی ہے جس پر موصوف نے لاہور سے سفر کا آغاز کیا اور K2 کے Base Camp جہاں تک گاڑی جا سکتی ہے اسکولی اور تستے تک جا پہنچے۔

اصل داستان کی طرف آنے سے قبل میں اپنے بھائی جناب ایڈووکیٹ منور مسعود ہیرا کا ادبی اور علمی تعارت اختصار کے ساتھ کرواتا چلوں، موصوف انگلش لیٹریچر میں ماسٹر ڈگری ہولڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز قانون دان ہیں اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے لائف ٹائم ممبر ہونے کے ناطے ان کی لاہور بار کیلئے گران قدر خدمات ہیں۔ موصوف بچپن سے ہی فطرت پسند ہیں اور فطری شاعر بھی ہیں، موصوف نے اپنے مافی الضمیر کے اظہار کی غرض سے اپنی شاعری کیلئے پنجابی زبان کا انتخاب کیا اور لفظ ہیرا کو اپنے تخلص کو طور پر اپنایا، پنجابی زبان اور پنجابی کلچر کے فروغ کی غرض سے سو فیصد اور اعلی پائے کی پنجابی غزلیں، گیت، لوک گیت اور بالخصوص روحانی شاعری کر کے اپنی شاعری کا سکہ جما چکے، اور موصوف کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انکی شاعری کی پہلی کتاب محض انکی 19 سالہ عمر میں شائع ہو گئی تھی اور موصوف کی دوسری شائع ہونے والی کتاب پنجابی ادب میں شاعری کی صنف بولی پر پاکستان میں شائع ہونے والی پہلی کتاب کا اعزاز بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔ طوالت کے خوف سے صرف اتنا کہوں گا کہ آپ کے ملک میں سے اکثر مشہور گلوکار حضرات نے بھی منور مسعود ہیرا کے ہی گانے گا کر شہرت پائی۔موصوف ایک سچے دوست، ایک رحم دل انسان، بہترین شاعر، مایہ ناز قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ فطرت پسند طبیعت کے مالک ہونے کی وجہ سے ایک زبردست سیاح بھی ہیں جوکہ موصوف کی فیس بک ٹائم لائن بتاتی ہے کہ وطن عزیز کے بیشتر سیاحتی مقامات اپنی روحانی نظر سے دیکھ چکے ہیں۔
مگر اس دفعہ موصوف نے کچھ عجب کرنے کا سوچا اور لوگوں کو حیرت میں ڈال کر وہ کارنامہ کر آئے جو لوگ اپنے تخیل میں بھی نہیں لاسکے۔ موصوف لاہور سے گلگت بلتستان پہنچے اور GB شگر کے شاہی وزیر جناب محمد نسیم شگری صاحب سے ملاقات کی جنہوں نے موصوف کو والئی شگر یعنی گلگت بلتستان کے تاریخی شہنشاہی گھرانے سے ملوایا اور موصوف نے والئی شگر عزت مآب جناب محمد اعظم خان صاحب کو واپسی پر نایاب تحفہ دینے کا وعدہ کرتے ہوئے الوداع کہا، موصوف نے ہمراہ محسن مسعود ہیرا ایڈووکیٹ ممبر لاہور بار ایسوسی ایشن اور مذکور شاہی وزیر کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور K2 کے بیس کیمپ اسکولی اور تستے کی طرف روانہ ہوئے، پہلے مذکور وزیر صاحب نے قہقہ لگا کر مذاق سمجھا کہ یہ چھوٹی سی گاڑی بھلا کیسے K2 کے راستے میں واقع آخری انسانی آبادی تک پہنچ سکتی ہے، جبکہ یہاں تو بڑی گاڑیاں بھی بڑی مشکل سے پہنچ پاتی ہیں؟ مگر موصوف نے کہا یہی ریکارڈ قائم کرنے کیلئے تو میں یہاں آیا ہوں، مگر وزیر صاحب خاصے پریشان ہوئے اور فرمایا کہ یہ تو سیدھا سیدھا موت کو گلے لگانے والی بات ہے کہ اتنی گہری اندھی کھایاں،رات کا اندھیرا، ناہموار دشوار گزار پہاڑی راستے، بارش و طوفان اور یہ چھوٹی سی گاڑی پر سفر یہ نا ممکن بات ہے۔ موصوف نے اپنے دوست وزیر صاحب سے عرض کیا کہ وہ انکے ساتھ ہی یہ ریکارڈ قائم کرنا چاہتے ہیں جیسے تیسے کر کے وزیر صاحب راضی ہوئے مگر اس شرط پر کہ جہاں کوئی خطرہ ہو گا وہ اتر جائیں گے۔ راقم نے موصوف سے حرف بحرف جو داستان سنی وہ یہاں ہو بہو اور راستے میں پیش آنے والے خطرات اور خوفناک موڑ و گھاٹیوں کو کراس کرنا تحریر نہیں کر سکتا، البتہ از راہ تفنن عرض کرتا چلوںکے سفر 11 گھنٹے میں بحفاظت پایہ تکمیل کو پہنچا اور محترم وزیر سیاحت صاحب بھی کوئی 11 بار گاڑی سے اترے اور موصوف کے اصرار پر دوبارہ بیٹھ جاتے اسطرح موسم اور راستے کی تمام تر سختیاں جھیل کر خدا خدا کر کے K2 کے راستے میں واقع گاڑیوں کے بیس کیمپ موضع اسکولی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور بعد ازاں وہاں سے آخری انسانی آبادی تستے تک پہنچے، جناب وزیر صاحب نے پہنچنے سے قبل موصوف کی بھاری بھر کم کامیابی پر اسکولی کے لوگوں اور ٹورسٹ پولیس کو ایڈوانس خبر کر دی تھی جو پھولوں کے ہار لئے موصوف کے انتظار میں تھے، اسکولی میں موصوف کا پر شکوہ استقبال کیا گیا اور مبارک بادیں پیش کی گئیں، رات اسکولی میں قیام کے بعد اگلے دن علی الصبح ریکارڈ مکمل کرنے کی غرض سےوادی شگر کے آخری گاؤں تستے پہنچے، جس سفر میں حفاظتی غرض سے ٹورسٹ پولیس کے اہلکار جناب محمد اشرف صاحب نے بھی ساتھ دیا، تستے پہنچنے پر دوبارہ پر تپاک استقبال اور دعوت طعام کی گئی۔ المختصر جتنا سفر پہنچنے کا مشکل تھا اتنا ہی سفر واپسی کا بھی مشکل تھا الاماشااللہ جب واپس پہنچے تو والی شگر گلگت بلتستان کے شاہی خاندان نے موصوف کا پر تپاک استقبال کیا اور عالمی ریکارڈ بنانے پر موصوف کے اعزاز میں شاندا تقریب کا انعقاد کیا اور پر تکلف اعشایہ دیا جس میں گلگت بلتستان ک نامور صحافی، امرا اور شرفا، SP شگر جناب ضیااللہ، ڈپٹی کمشنر شگر جناب صفات خاں صاحب نے شرکت کی۔ جبکہ ڈپٹی کمشنر شگر جناب صفات خان صاحب نے حکومتی اعداد شمار کی پڑتال کے بعد یہ تصدیق کی کہ شگر کی تاریخ میں پہلی بار اتنی چھوٹی گاڑی اسکولی اور تستے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے جو کہ ایک بہت بڑا سیاحتی اعزاز ہے، اس طرح حکومت گلگت بلتستان نے ریکارڈ کو تسلیم کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی سیاحت کی ترویج اور مذکورہ کارنامہ سرانجام دینے پر آفیشل سرٹیفکیٹ سے نوازا، جبکہ والئی شگر عزت مآب جناب راجا محمد اعظم خان صاحب نے جناب منور مسعود ہیرا ایڈووکیٹ صاحب کو سفیر شگر کے اعزاز سے نوازا، مزید یہ کہ موصوف نے سیاحت کے فروغ کی غرض سے اپنا عالمی ریکارڈ والئی شگر اور شگر کی عوام کے نام کیا اور اپنی مذکورہ تاریخی گاڑی کو بغرض یاداشت والئی شگر جناب راجا محمد اعظم خان صاحب کی نذر کر دیا جسکو انہوں نے قبول کرتے ہوئے گاڑی کو شگر کی عوام کے نام کیا اور انہوں نے مذکورہ تاریخی گاڑی کو ہمیشہ کیلئے شگر فورٹ موزیم کی زینت بنا دیا۔

چند روز قبل جناب منور مسعود ہیرا ایڈووکیٹ صاحب مذکورہ بالا عظیم اعزاز سفیر شگر سمیٹ کر جب لاہور بار ایسوسی ایشن، سول کورٹ لاہور میں پہنچے تو بار عہد یداران اور ممبر پنجاب بار اور دیگر ساتھی وکلا نے تاریخی، شاندار اور پر وقار استقبال کیا اور موصوف کیلئے پر تکلف ظہرانے کا انعقاد کیا۔ راقم نے بطور لکھاری یہ ضروری سمجھا کہ جس عظیم اور باہمت شخصیت نے وکلا، بالخصوص پنجاب کی دھرتی کا سر بلند کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا ہےاسکو کالم ہذا کے توسط سے خراج تحسین پیش کیا جائے۔ دل سے دعا گو ہوں کہ اللہ انکو اپنی حفظ امان میں رکھے اور انکے نصیب میں مزید ایسی ہزاروں کامیابیاں آئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں