سراج الدین حقانی…! (شاہجہان سالِف)

افغانستان کا موجودہ وزیر خارجہ سراج الدین ہے جو خود کو سراج الدین حقانی کہتا ہے۔

یہ حاجی جلال دین حقانی کا بیٹا ہے۔ جلال دین دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک (پاکستان) کا پڑھا ہوا تھا اس لیے اسے حقانی کہا جانے لگا۔ جلال دین حقانی کا قوم یا قبیلہ زدران ہے اور اس قبیلے کی بڑی تعداد افغانستان کے صوبوں پکتیا، خوست اور پکتیکا میں موجود ہے۔ زدرانوں کی پشتو فاٹا کے وزیر، محسود، داوڑ، آفریدی وغیرہ قبائل سے ملتی جلتی پشتو ہے۔زدران قوم کے بہت سے کرکٹرز بھی افغان کرکٹ ٹیم میں شامل ہیں جن میں دولت زدران، شاہپور زدران، مجیب رحمان زدران، نجیب زدران وغیرہ سرفہرست ہیں۔

جلال دین حقانی کا تعلق پکتیا کے ایک دور دراز پہاڑوں کے بیچ گھرے ہوئے گاوں سے ہے اور اس ایریا میں جتنے بھی دیہات ہیں ان سب کو ملا کر یہ ایریا زدران ایریا کہلاتا ہے۔ میرا آبائی گاوں جلال دین حقانی کے گاوں سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ہمارا قبیلہ بھی زدران ہی ہے اور میرا خیال ہے کہ ہم اور یہ حقانی آپس میں دور پرے کے رشتہ دار بھی ہیں۔

حقانی کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا اور آج بھی اس کے گاوں میں اس کا پرانا گھر موجود ہے۔۔ لیکن آج یہ خاندان نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے بھی امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے پاس اسلام آباد میں جو بنگلے ہیں ویسے بنگلے شاید ہی کسی اور کو میسر ہوں۔

افغانستان کے جس ایریا سے جلال دین حقانی کا تعلق ہے وہاں سینکڑوں میل میں شاید ایک آدھ کوئی واجبی سا پڑھا بندہ ہو۔ آج سے پچاس برس پہلے تو ایک آدھ بھی نہیں تھا سو جب جلال دین حقانیہ سے پڑھ کر آیا تو یہ بہت بڑا عالم شمار ہونے لگا اور اس طرح اس کا اثر و رسوخ قائم ہوا جو بعد میں اس کے جہادی سلسلے میں بہت کام آیا اور اس نے اسے خوب کیش کروایا۔

جلال دین نے افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تھا جس کے لیے اسے پاکستان نے مدد فراہم کی تھی۔ روس کے افغانستان میں آ جانے کے بعد اس کو مزید چمکایا گیا اور یہ ذرا بڑے پیمانے پر جہاد کرنے لگا جس میں اسے حقانیہ مدرسے کے طالب علموں کی ایک بڑی تعداد فراہم کی گئی۔ وہیں اپنے گاوں کے قریب پہاڑیوں میں بہت سے غار بنا کر اس نے اسلحہ ڈپو بنایا ہوا تھا۔

طلبان جب افغانستان پر پہلی بار قابض ہوئے تو طلبان اور ان کے ساتھ مل جانے والے دیگر جہادی گروپوں میں عہدوں اور دیگر وسائل کی بندر بانٹ کی گئی تو جلال دین کے حصے میں بھی ایک بڑی وزارت آئی (شاید وزرات دفاع). امریکہ جب افغانستان پر قابض ہوا تو جلال دین جتنا اسلحہ اور دولت ساتھ لے جا سکتا تھا لے کر وزیرستان منتقل ہو گیا اور وہاں پاکستانی حکومت کی سپورٹ سے مکمل عیاشی سے رہنے لگا اور یہاں سے افغانستان میں جہاد جاری رکھا اور اب اس کا گروپ حقانی گروپ کہلانے لگا۔

حقانی گروپ اس لیے حقانی گروپ نہیں کہلاتا کہ اس میں حقانیہ مدرسے کے طالب علم شامل ہیں بلکہ یہ گروپ جلال دین حقانی کی وجہ سے حقانی گروپ کہلاتا ہے۔

وزیرستان میں امریکہ کی طرف سے ڈرون حملے بڑھنے اور پاکستانی فوج کے وزیرستان میں آپریشن کیے جانے کی وجہ سے پاک فوج نے حقانی، اس کے خاندان اور دیگر طلبان لیڈرز کو اسلام آباد منتقل کر دیا اور وہاں انہیں بنگلے دیے گئے۔

جلال دین بوڑھا ہو گیا تھا سو اس کے بیٹے سراج دین نے اپنے گروپ کے معاملات سنبھال لیے۔۔ سراج دین حقانیہ مدرسہ کا نہیں پڑھا ہوا لیکن اپنے باپ کے نام میں آنے والے لفظ حقانی کی وجہ سے یہ اور اس کے دیگر بھائی بھی حقانی کہلوانے لگے۔ آج سے کچھ برس پہلے اسلام آباد میں ہی جلال دین حقانی کے ایک بیٹے کو اس کے بنگلے کے اندر قتل کر دیا گیا۔

پاکستان بھر میں اس قتل پر یہ شور مچایا گیا کہ اسے سی آئی اے نے قتل کیا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بات سامنے آئی کہ مقتول اندرون خانہ افغان حکومت سے مذاکرات و مصالحت کی کوششیں کر رہا تھا سو آئی ایس آئی نے اسے قتل کر دیا۔۔ اس قتل پر حقانی خاندان نے مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔
افغانستان میں، خاص طور پر پکتیا، خوست، لوگر، کابل وغیرہ میں ہونے والے بیشتر خودکش حملے حقانی گروپ کرواتا تھا۔۔ یہ لوگ جب وزیرستان میں تھے تو ان کے خودکش نوجوان آزادانہ گھومتے پھرتے تھے اور شہر والوں کو بھی پتا ہوتا تھا کہ یہ فدائی ہے جو کسی بھی وقت افغانستان جا کر پھٹ جائے گا۔۔ افغانستان میں ان کے بارے میں عوامی سطح پر یہ مشہور تھا کہ یہ گروپ صرف افغان آرمی اور افغان باشندوں پر حملے کرتے ہیں اور عام افغانوں کو پکڑ پکڑ کر ذبح کرتے ہیں۔

افغان عوام میں یہ پاکستانی اور پاکستانی ایجنٹ مشہور ہیں۔افغانستان میں ہونے والی بیشتر دہشت گردی اور عوام کے قتل عام کے پیچھے یہی گروپ رہا ہے۔

امریکہ نے جلال دین حقانی اور اس گروپ کے سراج دین حقانی سمیت پورے گروپ کو دہشت گرد قرار دیکر ٹاپ وانٹڈ لسٹ میں رکھا ہوا تھا۔ جلال دین حقانی کی طبعی موت آج سے کچھ برس پہلے سی ایم ایچ راولپنڈی میں ہوئی اور اس کی لاش اس کے گاوں لے جا کر دفن کی گئی۔

افغانستان میں اب دوبارہ جب طلبان کو قبضہ فراہم کیا گیا تو حقانی گروپ بھی آگے آیا اور حکومت میں اپنے حصے کا طلبگار ہوا۔ دیگر گروپوں نے ان کو حصہ دینے سے انکار کیا تو اس گروپ کے ساتھ شامل طلبان کے کچھ دوسروں گروپوں نے ان کے ساتھ ملکر باقاعدہ دوسرے بڑے گروپ کے ساتھ تلخ کلامی کی اور بات بڑھی تو ان میں گولیاں بھی چلیں، حتی’ کہ افغانستان کے ارگ یعنی صدارتی محل میں بھی ان کے درمیان نہ صرف گالم گلوچ ہوئی، ہاتھا پائی ہوئی بلکہ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا جس میں زخمی یا مرنے والوں کی تعداد کا علم نہیں ہو سکا مگر یہ کہا جا رہا ہے کہ انہی آپسی لڑائیوں میں ملا برادر یا تو زخمی ہوا یا مارا گیا۔

انہیں آپسی لڑائیوں کی وجہ سے طلبان کابل پر قابض ہو جانے کے باجود اپنی کابینہ کا اعلان نہیں کر سکے تھے۔۔ پھر پاکستان سے جنرل فیض گیا اور اس نے دونوں گروپوں کی آپس میں کچھ لین دین کروائی اور حقانی گروپ کے لیے کچھ عہدے حاصل کیے۔
حقانی گروپ کے موجودہ سربراہ اور افغانستان کے موجودہ وزیر داخلہ سراج دین حقانی کے سر پر آج بھی امریکہ کی طرف سے پانچ ملین ڈالر کا انعام ہے جو اس شخص کو دیا جائے گا جو سراج دین کو پکڑوانے میں مدد کرے گا یا اس کا کنفرم ایڈریس بتائے گا جبکہ کئی برس سے بچے بچے کو پتا ہے کہ سراج دین حقانی کا بنگلا اسلام آباد کے کس ایریا میں ہے۔

باقی حقانی خاندان تمام کا تمام آج بھی اسلام آباد میں ہے یعنی سراج دین حقانی کی فیملی، جلال دین حقانی کی فیملی اور اس کے دیگر بچوں وغیرہ کی فیمیلیز آج بھی اسلام آباد میں ہیں اور پاکستانی پاسپورٹ کے حامل ہیں۔ خود سراج دین نے پچھلے بیس برس میں کئی حج کیے ہیں سو یہ الحاج سراج دین کہلاتا ہے۔۔ یہ حج اس نے پاکستانی پاسپورٹ پر کیے ہیں۔

المختصر یہ کہ یہ خاندان افغانستان کے پکتیا کے قبیلے زدران سے تعلق رکھتا ہے اور یہ کہ کم از کم پچھلی دو دہائیوں سے یہ پورا خاندان پاکستانی شہری ہے۔ اب حکومت میں آنے کے بعد اگر سراج دین حقانی نے اپنا افغان پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوا لیا ہو تو ہو مگر اس کے خاندان کے دیگر بیسیوں لوگوں کے پاس افغان نیشنلٹی نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں