جنگ اور ہم …! (غلام مرتضیٰ باجوہ)

انسان بہت ہی کمزور مخلوق ہے، اپنی پیدائش سے لیکر موت تک ہرپل اورہرلمحہ اپنے خالق کی مہربانی کا محتاج ہے۔ ہاتھ وپیر میں چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور کام کاج کرنے کی طاقت۔ ناک، کان اور آنکھ میں سونگھنے، سننے اور دیکھنے کی طاقت دل ودماغ میں سوچ وفکر کی طاقت اور جسم میں جان کی طاقت سب ان اعضا کے بنانے والے اللہ کی جانب سے ہے۔ ایک آدمی اسی وقت زندہ رہ سکتا ہے جب تک اللہ کی مہربانی ہے، اس کی مہربانی سے محروم ہوتے ہی وہ دنیا سے فنا ہوجائے گا۔ اس بات کو مثال سے اس طرح سمجھیں کہ اللہ ایک آدمی پر تئیس گھنٹے مہربان رہا اور چوبیسویں گھنٹے اپنی مہربانی ہٹالیتا ہے، اس کے بعد آدمی چوبیس سکنڈبھی سانس نہیں لے سکتا۔ اس قدر مجبور وکمزور انسان بھلا طاقتور کیسے ہوسکتا ہے؟

اللہ نے انسانوں کی کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: (النسائ: 28)۔ ترجمہ:اللہ چاہتا ہے کہ تم پر آسانی کر دے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (الأنفال: 66)۔ ترجمہ: اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں کمزوری ہے۔سورہ روم میں انسان کی مرحلہ وار کمزوری بتاتے ہوئے اللہ فرماتا ہے:(الروم: 54)۔ ترجمہ:اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد توانائی دی، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے۔ (الروم: 47)۔ ترجمہ:ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے۔

اے کاش مسلمان شرک کی خطرناکی کو سمجھیں اور اس سے توبہ کرکے خالص ایمان وصحیح عقیدہ پر کاربند ہوجائیں۔

دوسری جانب عالمی میڈیا اور مختلف اداروں کی جانب سے جاری رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین میں جاری کشیدگی یعنی گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران ہونے والی چار جنگوں میں صرف غزہ میں رہائش، زراعت، صنعت، بجلی اور پانی کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کو پانچ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا۔ دو ہزار آٹھ، دو ہزار نو، دو ہزار بارہ اور اب دو ہزار اکیس میں غزہ پٹی کے علاقے میں ہونے والی جنگوں کے بعد ایک ہی طرح کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ مرنے والوں کا سوگ مناتے فلسطینی باشندے، آئندہ جنگ کے خوف سے لرزتے بچے اور کھنڈرات پر گھروں کی تعمیر نو کی کوشش کرتے فلسطینی۔ تاہم بغور دیکھنے سے ایک بھیانک حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ تعمیر نو کا کوئی بھی منصوبہ ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں تھا۔ جنگ زدہ علاقوں کی سیٹلائٹ تصاویر اور اموات کی تعداد دل ہلا دینے والے حقائق بیان کرتی ہیں۔

اقتصادی ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ غزہ کی ایک پوری نئی نسل روزگار کی اشد ضرورت کا سامنا کر رہی ہے مگر اسے کام کاج کے بہت ہی کم امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ فلسطینی باشندے انتہائی غیر مطمئن اور نا گفتہ بہ صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے 40 فیصد اپنے مستقبل کے بارے میں قطعی بے یقینی کا شکار ہیں اور اگر انہیں موقع ملے تو وہ غزہ پٹی کا علاقہ چھوڑ کر کہیں اور جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ مسلسل بحران کا شکار ہے اور جنگ ہر بار حالات کی سنگینی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ یہ نتیجہ فلسطینیوں کی جدوجہد اور مشکلات دونوں کو بڑھا دیتا ہے۔

غزہ ہمیشہ سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مقامِ حرب بنا رہا ہے۔ غزہ کی کل آبادی کا ایک تہائی ان خاندانوں پر مشتمل ہے، جو 1948ء کی جنگ کے دوران اسرائیل کی طرف سے جبری طور پر بے دخل کر دیے گئے تھے۔ 1980ء کی دہائی کے آخر میں غزہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی پہلی بغاوت کا آغاز ہوا تھا اور عسکریت پسند اسلامی گروپ حماس نے اسرائیل کے وجود کے خلاف اپنی تحریک شروع کی۔ 2007ء میں فلسطینی پارلیمانی انتخابات جیتنے کے ایک سال بعد حماس نے غزہ کا کنٹرول حاصل کر لیا اور اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کی سرحدیں بند کر دیں۔ نتیجہ یہ کہ آج بھی اسرائیل کی اجازت کے بغیر کوئی بھی اور کچھ بھی نا تو اس جگہ داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہاں سے نکالا جا سکتا ہے۔ہر بار کی جنگ میں حماس کی طرف سے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے گئے۔ گزشتہ دہائی کے دوران اسرائیل کے ‘آئرن ڈوم’ نامی فضائی دفاعی نظام نے بہت سے راکٹوں کو نشانے پر لگنے سے روک دیا۔ اسرائیل کی طرف سے گزشتہ مئی میں میزائلوں اور فضائی حملوں میں ڈیڑھ ہزار سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ تل ابیب حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنانا تھا مگر ان حملوں میں بہت سے شہری ڈھانچے بھی تباہ ہوئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس رہائشی علاقوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی ہے اور اس لیے چند شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔اقوام متحدہ نے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے غزہ میں بنیادی ڈھانچے کو اب تک کی جنگوں اور اسرائیلی حملوں سے پہنچنے والے نقصانات کا پتہ چلایا۔ یہ سیٹلائٹ تصاویر ایک جنگ کے بعد اگلی جنگ کے نقوش اور غزہ کی بار بار کی تباہی کی کہانی سناتی ہیں۔ متعدد بار تباہ ہونے والے علاقوں میں جنوبی غزہ کا علاقہ رفح، خزاعہ اور شمالی قصبہ بیت حنون وغیرہ شامل ہیں۔فلسطینی حکام کے مطابق غزہ کی دو ملین کی آبادی کا 70 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ ان نوجوان بالغوں نے اپنا بچپن اور بلوغت کے سال باقاعدہ جنگ کے دوران ‘وار زون’ میں گزارے ہیں۔ غزہ میں نوجوانوں کی اوسط عمر 19 اور اسرائیل میں 30 برس ہے۔ ان کو درپیش چیلنجز میں بے روزگاری اور طویل المدتی حالت جنگ میں زندگی بسر کرنے کے اثرات سے نمٹنا بھی شامل ہے۔ جب سے حماس نے غزہ پر قبضہ کیا ہے، اس علاقے میں بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اس کی سطح مغربی اردن کے فلسطینی علاقے میں بے روزگاری سے دو گنا زیادہ ہے کیونکہ ویسٹ بینک میں شہریوں کو آزادانہ نقل و حرکت کے مواقع میسر ہیں اور کام کی اجازت اور مواقع بھی زیادہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق غزہ کے علاقے میں بچوں میں ‘پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر’ بہت عام ہے۔ 2012ء کی جنگ میں قریب ایک ہزار بچوں کی مدد سے ایک ریسرچ مکمل کی گئی، جن میں سے تقریباً ہر ایک نے کہا کہ اس نے ٹینکوں، توپوں اور فوجی طیاروں سے شیلنگ کی آوازیں سنی ہیں۔ ان میں سے نصف بچوں نے کہا کہ انہوں نے کسی نا کسی کو زخمی ہوتے یا مارے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں