طالبان، سپاہ صحابہ اور جہادی تنظیموں کا کرم میں خونریز فسادات کا اقرار جرم…! (احمد طوری)

طالبان نے سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور پاکستان کے دیگر جہادی تنظیموں کے ساتھ مل کر وادئ کرم میں 2007 کے خونریز فسادات کا اقرار جرم کرلیا ہے اور فسادات کے علاوہ پاراچنار شہر میں ہوئے درجن بھر خودکش حملوں میں سے کئی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے “فدائین” (خودکش) حملہ آوروں کے نام اور مستقل پتے بھی شئیر کی ہیں۔

“انقلابِ محسود ساؤتھ وزیرستان۔
فرنگی راج سے امریکی سامراج تک”

طالبان رہنما مفتی نور ولی محسود کی کتاب “انقلاب محسود” کا تفصیل سے ذکر بعد میں کرتے ہیں پہلے قبائلی سٹرکچر اور جھگڑوں پر سر سری نظر ڈالتے ہیں کہ قبائلی علاقہ جات میں ایسے فسادات ہوتے کیوں ہیں؟ اور وادئ کرم میں مذہبی رنگ کیوں اختیار کرتے ہیں؟

وادئ کرم بھی دیگر قبائلی علاقہ جات کی طرح مختلف پشتون (پختون) قبائل کا ہزاروں سال سے مسکن رہا ہے اور قبائلی جنگ و جھگڑے بھی وقتاً فوقتاً شروع جاتے ہیں۔ وزیرستان سے لے کر ڈی آئی خان اور بنوں تک آباد وزیر، محسود، بیٹنی، مروت، داؤڑ، گنڈا پور پشتون قبائل ہوں یا اورکزئی، خیبر، مہمند، باجوڑ میں اورکزئی، افریدی، باجؤڑی، یوسفزئی، مہمند یا دیگر قبائل، حتی، ہنگو، کوہاٹ، پشاور، مردان، صوابی اور دیر تک آپس میں قبائلی دشمنیاں عام ہیں جس میں زیادہ تر جھگڑے اراضی کے تنازعات، پہاڑ، نالوں اور پانی کے جھگڑے زمانہ قدیم سے چلتے آ رہے ہیں۔ اور وادئ کرم بھی میں یہ رواج عام ہے۔ افغانستان اور بلوچستان کے پشتون قبائل کا بھی یہی حال ہے۔

بدقسمتی سے پختون قبائل آپس میں دشمن دشمن ہیں۔

مگر وادئ کرم دیگر قبائلی جھگڑوں کے ساتھ ساتھ شیعہ سنی فسادات کی بھی آماجگاہ ہے۔ جہاں وقتاً فوقتاً عام قبائلی جھگڑے بھی فرقہ ورانہ فسادات میں تبدیل ہوتے رہے ہیں، جس کے کئی پہلو ہیں۔ مگر سب سے اہم وجہ وادئ کرم میں آباد پشتون شیعہ قبیلہ “ طوری قبیلہ ” ہے جو شیعہ بنگش قبائل کے ساتھ مل کر وادئ کرم کی اکثریتی آبادی ہے۔ یوں وادئ کرم کے اہل سنت قبائل دور دراز دوسرے اہل سنت قبائل کے ساتھ مل کر ہمیشہ سے ان کے خلاف “جہادی جذبے” سے سرشار ہوکر لڑتے رہے ہیں اور پھر شمالی و جنوبی وزیرستان سے لے کر اورکزئی، خیبر، باجوڑ، مہمند حتی سوات، دیر سمیت ملک کے دور دراز علاقوں اور شہروں کے جہادی “جام شہادت نوش” کرنے یا “غازی” بننے کے لئے وادئ کرم کا رُخ کرتے ہیں۔ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے بعد طالبان نے بھی “مذہبی فریضہ” سمجھ کر اہل تشیع کا خون “ثواب” سمجھ کر بہایا ہے۔

اور اب بھی سپاہ صحابہ کے سرگرم کارکن عید نظر فاروقی سمیت کی افراد (کرم ایجنسی) موجودہ قبائلی ضلع کرم سے لیکر کوہاٹ تک مذہبی دہشتگردوں کو اکھٹا کرکے فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں اور ریاست تماشہ دیکھ رہی ہے۔

جن حالات کا مقابلہ سینکڑوں سال سے وادئ کرم کے طوری قبائل کررہے ہیں اس کا تقابل آپ فلسطین (غزہ) کے مسلمانوں سے کرسکتے ہیں جہاں یہود نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا ہے اور اس کی جھلک آپ کو 2007 سے لے کر 2012 تک وادئ کرم کے محاصرے اور مسلط کردہ جنگ میں نظر آئے گی جہاں پانچ سال محاصرہ کرکے ضلع کرم کے اہل تشیع کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش گئی، جس کی کچھ تفصیل تو دنیا کو پتہ ہے اور طوری قبائل نے تو بھگتا ہے اسلئے ان سے زیادہ کسی کو نہیں پتہ۔۔

مگر اب پہلی بار طالبان قیادت نے وادئ کرم پر جنگ مسلط کرنے کا اقرار کیا ہے اور جنگ کی تفصیلات جاری کی ہیں جس میں 120 تک طالبان رہنماؤں و ارکان کی ہلاکت اور کروڑوں روپے مالیت کے اسلحے کی تفصیل بھی درج ہے۔

مگر حیرت ہے کہ وادئ کرم سے بھاگے ہوئے دہشتگرد اب پشاور اور دیگر علاقوں میں 2007 فسادات کے جیوڈیشل انکوائری مطالبہ کرکے احتجاج کررہے ہیں، مفتی نور ولی محسود کی کتاب منظر عام پر آنے ک بعد ان کے منہ بند ہونے چائیے کیونکہ طالبان کے سہولت کاروں کی وادئ کرم میں کوئی جگہ نہیں۔

وادئ کرم کے پشتون شیعہ “طوری قبائل” کے خلاف عرصہ دراز سے پختونخوا اور افغانستان کے اہل سنت قبائل “جہادی”سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، جس سے ریاست مکمل طور پر چشم پوشی اختیار کیئے ہوئے ہیں جو اس دہشتگردی میں معاونت یا سہولتکار کے زمرے میں آتا ہے۔ طوری واحد پشتون قبیلہ ہے جو مکمل طور پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، افغانستان، پاکستان اور پڑوسی ممالک کے درمیان سینڈوئچ بن کر رہ گیا ہے، طوری قبائل تو پاکستان اور افغانستان کے تکفیری دہشتگرد گروپوں اور ریاست پر الزامات لگاتے رہے ہیں مگر اب پہلی دفعہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی اعلی قیادت نے وادئ کرم میں شیعہ سنی فسادات میں بھرپور حصہ لے کر قتل و غارت گری کا اقرار کیا ہے، وادئ کرم کے شیعہ پشتون قبائل کے خلاف طالبان نے سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور دیگر نام نہاد جہادی تنظیموں سے مل کر کروڑوں کا اسلحہ استعمال کیا ہے اور سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں کے ہلاکت کی بھی تفصیل جاری کی ہے جس میں وزیرستان کے محسود قبائل کے ساتھ ساتھ وزیر قبائل، مروت، گنڈاپور، داؤڑ اور بٹنی سمیت اورکزئی قبائل کے مسلح دہشت گرد بھی شامل رہے ہیں۔

یہ تفصیلات تحریک طالبان پاکستان کے امیر ابو منصور عاصم مفتی نور ولی محسود نے اپنی کتاب “انقلابِ محسود ساؤتھ وزیرستان۔ فرنگی راج سے امریکی سامراج تک” میں شائع کی ہیں۔

688 صفحات پر مشتمل اس کتاب جس کا اہتمام طالبان کے نائب امیر خالد محسود نے کیا ہے میں طالبان نے پاکستان اور افغانستان میں سینکڑوں دہشتگرد کاروائیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو شہید پر کارساز میں دھماکا اور پھر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں خودکش حملے کی تفصیل بھی صفحات 395, 396 اور 397 پر شائع کی گئی ہیں۔ بےنظیر بھٹو پر کارساز میں حملہ کرنے والے خودکش حملہ آور “فدائی” نور حسین کی جس رات وزیرستان میں شادی کی تقریب جاری تھی اسی رات اس نے کراچی میں خودکش حملہ کرکے 200 سے زائد افراد قتل کر دیئے اور “ جنت کی حوروں” کے ساتھ شادی کو ترجیح دی، جبکہ مصنف نے صحابی حضرت حنظلہ سے تشبیہ دے کر مدح سرائی کی گئی ہے۔

مفتی نور ولی محسود نے جی ایج کیو، آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز، مہران بیس، پرویز مشرف، بشیر بلور، اسفندیار ولی خان، آفتاب احمد خان شیرپاؤ سمیت درجنوں سیاسی رہنماؤں پر خودکش حملوں کی تفصیل بھی شئیر کی ہے اور خودکش بمباروں کی ولدیت اور علاقے سمیت تفصیلات شئیر کی گئی ہیں۔

طالبان رہنما نے اپنی کتاب میں وزیرستان میں خودکش حملہ آوروں کے تربیتی مراکز، مولویوں اور مدارس جہاں فدائی تیار ہوتے تھے اور سہولتکاروں کی تفصیلات بھی شائع کی ہیں۔

مفتی نور ولی نے “انقلاب محسود” نامی کتاب میں وزیرستان کے علاوہ اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، ڈی آئی خان، بنوں، ٹانک سمیت پاراچنار (وادئ کرم) میں پاک افواج کے خلاف کی گئی کاراوائیاں درج کی ہیں اور پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں قادیانیوں (احمدی)، بریولوی اور اہل تشیع کے خلاف کی گئی مختلف کارروائیاں تفصیل قابل ذکر ہے۔ مصنف نے وزیرستان میں “بریلویت پھیلانے کے جرم میں ایک شخص کی ہلاکت کا بھی ذکر کیا ہے جس کے ساتھ اس کی چھوٹی نواسی بھی قتل کردی گئی تھی۔

طالبان رہنما نے چونکہ یہ کتاب محسود قبیلے پر لکھی ہے لہٰذا زیادہ تر تفصیلات بھی محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے دہشتگروں کی شائع کی گئی ہیں، جس میں دہشتگردوں کے نام اور ولدیت سمیت گاؤں اور علاقے کے مستقل پتے بھی شائع کی گئی ہیں۔

کتاب کے صفحہ 606 سے 610 تک “کرم ایجنسی میں شیعوں سے جنگ اور اسکے اسباب” کے ذیل میں مفتی نور ولی محسود نے طالبان کے وادئ کرم میں خونریز جنگ کی تفصیلات اور اسباب بیان کئے ہیں، جس کے مطابق طالبان چیف بیت اللہ محسود کے حکم پر حکیم اللہ محسود، شیر اعظم آقاء محسود، فخر عالم محسود عرف جرار، مولانا نصر اللہ عرف منصور، کمانڈر ملا سنگین نے وادئ کرم میں 2007 سے لے کر 2009 تک فسادات اور خونریز جنگوں میں حصہ لے کر اہل تشیع کے کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے اور سینکڑوں افراد کے قتل کا بھی اعتراف کیا ہے، جبکہ لاکھوں کے “مال غنیمت” کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

مفتی نور ولی کرم ایجنسی کے شیعوں سے جنگ کو “غیر ضروری” جنگ قرار دیتے ہوئے اس کے کئی اسباب بیان کرتے ہیں، جس سے بیت اللہ محسود کے کئی مقاصد حاصل ہوئے مگر بحیثیت مجموعی یہ جنگ طالبان کے بدترین جنگوں میں سے تھیں جہاں طالبان کی بدنامی ہوئی کیونکہ اس طرح جنگیں کرم ایجنسی میں اور ہر ایجنسی میں قبائل لڑتے رہتے ہیں، بہت زیادہ طالبان رہنما اور کارکن قتل ہوئے اور چھ کروڑ روپے کا اسلحہ صرف بیت اللہ نے خرید کر اس جنگ میں استعمال ہوا۔

1: مفتی نور ولی محسود خود بیت اللہ محسود سے گفتگو کرتے ہوئے شیعوں سے جنگ کے بابت پوچھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “بیت اللہ محسود وادئ کرم کے “اہل تشیع” کو افغان جہاد میں رکاؤٹ سمجھتے تھے، (جبکہ محسود جہادیوں کو وادئ کرم سے کوئی لینا دینا نہیں تھا! وہ خوست اور مقبل سے ہوتے ہوئے بآسانی افغانستان آ جا سکتے تھے/ہیں) مگر مفتی نور ولی، صفحہ 607 پر ذکر کرتے ہوئے مولوی ثاقب یا مولوی خیرخواہ یا مولوی ابوزکر ان کا حوالہ دیتے ہوئے دوسرا سبب 2 لکھتے ہیں کہ کرم ایجنسی میں شیعوں اور حقانی نیٹ ورک میں افغان جہاد کے لئے سپلائی روٹ پر اختلافات پیدا ہوگئے تھے لہذا بیت اللہ محسود نے حقانی نیٹ ورک کی جنگ اپنی سر لیتے ہوئے اس میں کور پڑے۔ اسی صفحے پر مندرجہ راویوں سے ہی نقل کرتے ہوئے مفتی تیسرا سبب 3 لکھتے ہیں کہ انہی مہینوں میں ایرانی وفد نے بیت اللہ محسود سے ملاقات کی تھی، جس کا پاکستان کو پتہ چلا تو انہوں شیعہ سنی جنگ کو ہوا دی جس میں پھر بیت اللہ محسود بھی کود پڑے۔

چوتھے 4 سبب کے طور پر مولانا معراج الدین قریشی نے بیت اللہ محسود کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ “خفیہ ادارے ایران کے مظبوط اڈے کو طالبان کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے لہذا اس میں حصہ نہ لیں۔ (جیسے پاکستان کی نمبر ون جاسوسی ایجنسی آئی ایس آئی سمیت دو درجن ایجنسیوں کو کوئی پتہ نہیں، جو ضلع کرم میں فعال ہیں، یہ گمراہ کن پروپیگنڈا سے زیادہ کچھ نہیں)۔

پانچویں 5 سبب کے طور پر مفتی نور ولی ایک من گھڑت اور فیک افواہ کر جواز وادئ کرم ایجنسی میں اہل تشیع کے خلاف جنگ “جہاد” میں کود پڑتے ہیں کہ “اہل سنت کی ایک خاتون کو اہل تشیع نے اغوا کیا اور “مخبرہ سیٹ” پر اہل سنت کو اس کا “پیغور” عار دلاتے تھے لہذا اہل سنت کی ناموس کی بےعزتی بیت اللہ محسود سے برداشت نہیں ہوئی اور جنگ میں کود پڑے۔

“اس کا جواب””

“سپاہ صحابہ کے غنڈے عرصہ دراز سے اس طرح ہتھکنڈے استعمال کرکے فساد بھڑکا تے رہے ہیں ورنہ 2007 سے 2009 تک کرم ایجنسی میں ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ہے، اور نہ کسی پختون کا غیرت یہ گوارہ کرتا ہے کہ کسی خاتون کی اس طرح بےعزتی کریں۔

مگر افسوس یہ ہے کہ کچھ جوان لڑکیوں کی ویڈیو 2015ء کے بعد سامنے آئیں مگر وہ طوری قبائل کے دو جوان لڑکیاں اہل سنت قبائل کے پاس تھیں جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی تھیں، یہ غلیظ حرکتیں تو آپ لوگ کرتے رہے ہیں، مگر الزامات دوسروں پر ڈال کر قتل و غارت گری کا جواز پیدا کرتے ہیں”۔

آگے جا کر مفتی نور ولی وادئ کرم اہل تشیع کے خلاف جنگ کا اصل مقصد (چھٹا 6 سبب) بتاتے ہوئے تجزیہ بھی کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا وجوہات کے علاوہ “دراصل بیت اللہ محسود نے شیعوں کے خلاف جنگ بغیر کسی سے مشورہ کئے شروع کی جس کا مقصد پاکستان کے دیگر اسلامی مذہبی تنظیمیں جو خصوصاً شیعوں کے خلاف برسرپیکار تھیں یا “جہادی مشاغل” کے ساتھ شیعوں کے خلاف بھی سرگرم عمل تھے ان کو اعتماد میں لینا تھا اور کچھ لو کچھ دو کے پالیسی کے تحت سب کو اپنے ساتھ ملایا لہذا بیت اللہ محسود اس مقصد میں کامیاب ہوئے۔ “ کہ ہم سب کا مقصد ایک ہے کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولہ کے تحت انہی تنظیموں اور گروپوں کو اپنے قریب کر کے پاکستان میں اپنے ساتھ ملا کے جنگ کو آگے بڑھایا، چنانچہ یہ فارمولہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوا کرم ایجنسی کے علاوہ بھی پورے پاکستان میں شیعوں کے خلاف کاروائیوں میں حصہ لیا۔ قاری حسین احمد صاحب شہید ) تو اسی کام ہی میں مگن رہے۔ اس فارمولے پر عمل کے نتیجہ میں ان تنظیموں اور گروپوں نے بھی بیت اللہ محسود وغیرہ کا جہاد پاکستان میں بڑا ہی ساتھ دیا۔ یہ تھے و اسباب اور وجوہات جس کی وجہ سے کرم ایجنسی میں شیعہ سنی جنگ میں طالبان نے بھی حصہ لیا۔ ہر جنگ کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں یہ ممکن ہے کہ مختلف مواقع پر مذکورہ بالا اسباب پیش ہوئے ہو جس کی وجہ سے بیت اللہ محسود نے جنگ کا فیصلہ کیا ہو۔ اگر چہ کرم ایجنسی میں شیعہ سنی جنگیں انکے آباء و اجداد کے زمانے سے چلی آرہی تھیں، یہ بھی انکی معمول کی جنگیں تھیں جو پشتون قوموں سے ہوتی رہتی ہیں یہ جنگ بھی تقریبا اسی کی کڑی تھی۔ البتہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جنگ میں طالبان نے کیا کھویا کیا پایا؟ تو اس کا سادہ سے جواب یہ ہے کہ عالمی جہادی سیاست کی رو سے طالبان نے نقصان اٹھایا”

مصنف افغان طالبان کے کامیابی کا مثال دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ افغانستان کے اہل تشیع کے خلاف نرم رویہ اپنایا ہے اس سے افغان طالبان کو فائدہ ہوا ہے جبکہ پاکستان میں اہل تشیع سب طالبان کے دشمن بن گئے ہیں جس سے طالبان کو شدید نقصان پہنچا۔

مصنف کرم ایجنسی میں اہل تشیع کے خلاف “محسود طالبان کی پہلی جنگ” کے ذیل میں صفحہ 608 پر لکھتے ہیں کہ “کمانڈر عاجز بی بی زائی امیر حلقہ دور دوم شوال کے بقول 25 اکتوبر 2007ء کو پہلی بار بیت الله امیر صاحب کے حکم پر کمانڈر فخر عالم محمود عرف اجرار کے زیر کمان کرم ایجنسی میں شیعوں کے خلاف جنگ شروع ہوئی اس جنگ میں طالبان نے شیعوں سے کئی قصے قبضہ کئے جن میں سیدان گاؤں قابل ذکر ہے، شیعوں پر طالبان کا پلہ بھاری رہا۔ اس میں سینکڑوں شیعہ افراد مارے گئے اور ان کے پورے پورے گاؤں “فتح” کئے اور بطور “مال غنیمت” کے لاکھوں کی مالیت طالبان کے ہاتھ لگی۔ اس جنگ میں محسو د طالبان کا بھی کچھ حد تک جانی نقصان ہوا جن میں چند اہم کمانڈر مثلا کمانڈر یوز خان حلقه، شکتوئی اور کمانڈر گل شریف، حلقه زانگاڑہ مارے گئے اور عبدالمالک ولد ماخود، مرسنزئی (2) فیض اللہ خان ولد بیت اللہ حلقہ شکتوئی دودیے خیل، (3) خاندان والد شاہ ولی خان، کیکاڑئی، (4) قاری محمد نواز نیک زان خیل، خیسور، (5) جاماز خان ولد راعستان برکی، حلقہ سام، وغیرہ اس جنگ میں “رتبہ شہادت” پر سرفراز ہوئے ان کے علاوہ مقامی سنی آبادی کے جوانوں کے بارے میں تفصیل ہاتھ نہ آسکی۔ یہ تمام ہلاکتیں خصوصا دسمبر 2007ء کے اوآخر میں ہوئے، بالخصوص کمانڈر نیوز خان محسود وغیرہ کی ہلاکت 27 دسمبر 2007 کو وقوع پزیر ہوئی۔

مجھے یاد ہے! طالبان اور دیگر دہشتگرد مورچوں سے اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے فائرنگ کرتے رہے اور طوری قبائل کے مورچوں کی طرف آوازیں کستے رہے کہ “آپ کی ماں “بےنظیر بھٹو” کو قتل کردیا گیا ہے”۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے مصنف نور ولی محسود لکھتے ہیں کہ “جرگوں کی وساطت سے یہ جنگ تھم گئی اور ایک صلح کے تحت مجاہدین محسود نے شیعوں کے قبضہ شدہ علاقوں کو واپس کر کے اپنے وطن لوٹے۔ جن دنوں پاکستانی فوج 2008ء کے ابتداء میں جنوبی وزیرستان علاقہ محسود میں شدید لڑائی جاری تھی”۔

وزرستان سے دہشتگرد دوبارہ واپس کرم ایجنسی آتے ہوئے مفتی نور ولی لکھتے ہیں کہ “کچھ مہینوں بعد جب پاکستانی فوج سے محسود طالبان نے معاہدہ کیا تو ان دنوں میں شیعہ کے بعض خلاف ورزیوں کی بنا پر دوبارہ جولائی۔ اگست 2008ء میں حکیم اللہ محسود کے زیر قیادت میں جنگ شروع ہوئی۔ کمانڈر عاجز بی بی زائی کے بقول یہ لڑائی 7 جولائی 2008ء کو شروع ہوئی۔ ان کے بقول ہم نے پہلی بار شیعوں کے مشہور گاؤں چاردیوار کے دفاعی مورچوں پر حملہ کیا جسے فتح کر کے دم لیا۔ ان ہی کے بقول اسی روز او پر دوسرے دفائی مورچوں پر اور چاردیوار گاؤں پر تعارض کیا، لیکن شدید لڑائی کے باوجود چاردیوار گاؤں فتح نہ ہو سکا، اس لڑائی میں تقاری حضرت الله ولد محمد مرجان نظر خیل محمود حلقہ بدر اور ایک “بھٹنی” مجاہد حضرت علی بمع تین ساتھیوں کے ہلاک ہوئے۔

اسی طرح 11 جولائی 2008 کو بالترتیب ہم نے سہ پہر گاؤں چاردیوار پر تعارض کا پروگرام بنایا، دفاعی مورچے میرے ذمہ لگائے گئے جبکہ گاؤں پر تعارض کی ذمہ داری انقلاب محسود (جنکا تعلق حلقہ ڈیلے سے تھا) کو دی گئی۔ یوں ہم نے یکبارگی مورچوں اور گاؤں پر حملہ کیا جس میں ہلکے اور بھاری اسلحہ کا بے دریغ استعمال ہوا اور اللہ تعالی کی نصرت سے مورچے اور گاؤں فتح ہوئے اور چند دن پہلے حملے میں جو طالبان کی لاشیں وہاں رہ گئیں تھیں وہ بھی ہاتھ آگئے اور اسکو وہاں سے منتقل کر گئے اور ساتھ ساتھ کافی سارا “مال غنیمت” ہاتھ میں آگیا”۔

“انزری سر اور انزری گاؤں پر حملہ”

کے ذیل میں نور ولی لکھتے ہیں کہ

“15 ستمبر 2008 ء کو کمانڈر مولانا نصر اللہ عرف منصور کے زیر کمان مجاہدین محسود اور مجاہدین اورکزئی نے اینزری سر مورچوں پر اور اینزری گاؤں پر تعارض کیا جس میں “بفضل تعالی” پانچویں دفاعی مورچے فتح ہوئے۔ اس تعارض میں 8 شیعہ ہلاک ہوئے اور مال غنیمت کافی ملا، جس میں تین یا چار عد و کلاشنکوف ایک سکیلہ (گرینوف ) ایک عدد آر پی ابھی بمع گولیاں بھی شامل تھے۔ جبکہ شیعوں کے جوابی فائرنگ سے دلاور خان ولد میر صاحب خان فقیر سپینه میلا حلقه وچه خوڑہ ہلاک ہوئے، اور اس کے علاوہ تین یا چار دوسرے مجاہدین شدید زخمی ہوئے جبکہ جلال خان ولد اجمل خان ظریف خیل “حلقہ مکین” بھی ہلاک ہوئے”۔

“ایک دن کے بعد شیعوں نے تعارض کر کے دوبارہ اپنے مورچوں پر قبضہ کیا۔ 26 ستمبر 2008ء کو دوباره انہی مورچوں اور گاؤں پر کمانڈر ملا منصور کے زیر کمان تعارض ہوا دونوں طرف سے شدید لڑائی ہوئی۔ اس لڑائی کے نتیجہ میں تمام مورچوں کو مجاہدین نے فتح کیا اور اینزری کلی (گاؤں) کو نذر آتش کیا لیکن مجاہدین کا اس لڑائی میں مارٹر گولوں اور بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے کافی نقصان ہوا۔ تقریبا 18 مجاہدین کی ہلاکےیں واقع ہوئی۔ جن میں سے شانواز ولد میرشان ملک دینائی حلقہ ڈیلے جو کمانڈر انقلاب سے مشہور تھے، بارودی سرنگ سے ٹکرا گئے اور ہلاک ہوئے۔ اور جمیل محسود ولد لاپڑ خان کیتوڑی حلقہ سپنکئ رغزائی والے شامل تھے باقی ہلاک جہادیوں کا تعلق کرم ایجنسی، اورکزئی، بھٹنی، گنڈاپور اور داوڑ قبیلے سے تھا”۔

کتاب کے صفحہ 609 پر مصنف “اینزرائی اور بوتل سر مورچوں پر حملہ” کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ

“یکم ستمبر 2008ء کو کمانڈر ملا سنگین کے زیر کمان اینزیرائی سر مورچوں پر تعارض ہوا اور مکمل مورچے فتح ہوئے، اس لڑائی میں ملا سنگین کے بھائی وارچ خان زخمی ہوئے، جبکہ اسی روز بوتل سر کے اونچے پہاڑی فیچر پر واقع شیعہ پیکٹ پر کمانڈر شیر اعظم آقاء کے زیر کمان تعاض ہوا لیکن یہ تعارض ناکام ہوا اور اس میں طالبان کا جانی نقصان ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں مولانا موسی ولی محسو ولد رشید خان مال خیل کڑمہ حلقہ ڈیلے (2) سفير اللہ عرف پتنگ ولد قمر جان نیک زان خیل حلقه بروند(3) عابد حسین ولد اکبر جان شمیرائی حلقہ بروند (4) محمد اسماعیل ولد مائنل خان عباس خیل ٹو ٹکئے حلقه بروند شامل تھے۔ انہی دنوں کمانڈر مولانا عزیز اللہ شابی خیل عرف خڑگائی ماسید حلقہ بروند اپنے گاڑی میں غلطی سے شیعوں کے علاقے میں داخل ہوئے جس پر شیعوں نے حملہ کیا جسکے نتیجہ میں رحمن الله ولد رحمت شاه دار کئی حلقہ جاٹر ائی۔ (2) احمد ولد پسمرجان درا من خیل (3) شیر کلام ولد مقار خان نیک زان خیل عرف مجنون حلقه بروند بھی مارے گئے۔ خود مولوی عزیز الله اور اسکے ڈرائیور محمد فاروق زخمی ہوئے لیکن ڈرائیور نے زخمی حالت میں گاڑی اور لاشوں کو واپس نکالا، انہی دنوں دوبارہ شیعوں نے حملہ کر کے انزری گاؤں کو دوباره قبضہ کیا، چند دن بعد شیعوں نے پرزور حملہ کر کے تمام مقبوضات کو طالبان سے واپس قبضہ کے لیئے، اس لڑائی میں خانزادہ والد رشید خان نظر خیل علاقه بروند ہلاک ہوئے”۔

“شیعہ علاقوں پر دوبارہ بڑا حملہ” کے ذیل میں “انقلاب محسود کے مصنف مفتی نورولی صفحہ 609 پر لکھتے ہیں کہ

“ستمبر 2008 ء طالبان اپنے امراء اور بڑے بڑے کمانڈروں کے شانہ بشانہ شیعہ علا قوں پر دوبارہ حکیم اللہ محسود اور کماندر شیر اعظم آقاء محسود کے زیر کمان جو بنفس نفیس جنگ میں شریک تھے تعارض (حملہ) شروع کیا، سابقہ تمام گاؤں اور قصبوں کو دوبارہ قبضہ کر کے شیعہ تسلط ان سے ختم کر دیا۔ اس تعارض میں حکیم اللہ محسود معمولی زخمی بھی ہوئے۔ جبکہ ایک شیعہ زخمی حالت میں گرفتار ہوا اور دو کی لاشیں بھی طالبان نے اپنے قبضہ میں لی۔ یوں طالبان کے زیر تسلط شیعہ علاقوں میں سے یہ علاقے اور گاؤں قابل ذکر ہیں (1) چار دیوار ٹیٹ اور چگ (2) بوتل گاؤں “بوتل سر” (3) اینزرائی گاؤں (4) سیدان گاؤں وغیرہ دوسرے قریبی علاقے اور قصبات شامل تھے۔ یہ ناکافی تفصیلات بہت مشکل سے ہاتھ آئے، خصوصاً لڑائی کے بارے میں تفصیلات اور ان میں جانبین کے نقصانات جولائی سے ستمبر تک بہت سارے لڑائیاں لڑی گئیں لیکن سب کی تفصیل اکٹھا کر کے جمع کرنا ناممکن ہوا البتہ باوثوق ذرائع سے یہ بات اور طالبان سے مجھے ملی کہ اس لڑائی میں 90 سے 120 تک طالبان ہلاک ہوئے اور کروڑوں کی مالیت کے حساب سے اس میں اسلمہ صرف ہوا۔ جبکہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مقامی آبادی کے سینگروں باشندے اور مسلح اہلکار مارے گئے”۔

مفتی نور ولی محسود نے ایران اور افغانستان کے ہزارہ کا ذکر کیا ہے جو طوری قبائل کی جانب سے لڑ رہے تھے، مگر یہ سفید جھوٹ اسلئے ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہ کتاب میں دستیاب ہے اور نہ ہی حکومت یا ایجنسیوں کی طرف سے ایسی کوئی ثبوت سامنے آئی ہے۔ مگر بطور اہل کرم اور طوری کے میں یہ بات ذمہ داری سے لکھ سکتا ہوں کہ طوری قبائل اپنے جوانوں کے علاوہ کسی کے مدد کے بل بوتے یہ جنگیں نہیں لڑتی، طوری۔ بنگش قبیلے کے ہزاروں جوان شہید ہوئے ہیں، اس کے علاوہ باہر سے نہ کوئی مدد کے لیے آئے ہیں اور نہ ہی طوری قبیلے کو کسی سہارے کی ضرورت ہے۔ یہ دھرتی ہماری ہے اور سر اُٹھا کر سینکڑوں سالوں سے یہاں جی رہے ہیں اور مرتے بھی رہے ہیں۔ طوری قبیلہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

صفحہ 610 پر نور ولی محسود بات آگے بڑھاتے ہوئے بہت سے ساتھیوں کے نام ولدیت اور علاقوں کے نام بتائے ہیں جو وادئ کرم پر حملہ آور ہوئے تھے۔

“اس لڑائی میں محسود طالبان کے وہ ہلاکتیں جن کے صرف نام ملے لیکن لڑائی کی جگہ اور تاریخ کے بارے میں تفصیلات ہاتھ نہ آئے ان ہلاک ہونے والوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں اور باقی ایجنسیوں کے ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے تفصیل جمع کرنا ناممکن رہا۔

(1) کمانڈر انقلابی کے ساتھ 15 ستمبر 2008ء کو اینزری گاؤں پر تعارض میں بادشاہ دین عرف طوطی ولد میرزا علی خان وزیر گائے مال خیل حلقہ ڈیلے ہلاک ہوا۔

(2) سلمان عرف مجرور ولد لال منیر مچی خیل لنڈائی رغزائی حلقہ بروند نے اگست 2008ء کے ادوار میں اس لڑائی ہلاکت ہوئی (3) محمد باشم ولد حاکمین برکی حلقہ سام جب شیعوں نے اپنے مقبوضات واپس لینے کیلئے تعارض کیا تو اس دوران شیعوں کے فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔

(4) محسن ولد مامک سلم کائی عبدالائی حلقہ مکین ستمبر 2008 ء کے لڑائی میں مارے گئے۔

(5) الطاف ولد جان داتی، بہادر خیل عبدالائی حلقہ قلندر بھی ستمبر 2008ء میں ہلاک ہوئے،

(6) عثمان ولد داود خان، نظر خیل حلقہ سپنکئ راغزئی بھی اگست 2008 میں ہلاک ہوئے۔

(7) انعام الله ولد داؤد جان ، ہیبت خیل حلقہ کی سپنکئی رغزائی بھی اگست 2008 ء میں اپنے ساتھی کے گولی سے ہلاکت ہوئی جو بغیر پوچھے مورچے سے باہر گیا تھا ساتھی نے اسے دشمن سمجھ کر فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔

(8) فیروز خان، نظر خیل حلقہ سپنکئ رغزائی بھی اس لڑائی میں ستمبر 2008 ء میں ہلاک ہوئے۔

(9) خانزادہ ولد رشید خان، نظرخیل حلقہ بدر اگست 2008ء میں طالبان نے جب شیعوں پر تعارض کیا اسی دوران دشمن کے جوابی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔

(10) شاه قیاز ولد لاوٹ خان ، میر خونائی حلقہ کتوئی اگست 2008ء میں مارے گئے”۔

یہی وہ وقت تھا جب طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود نے ضلع کرم میں طوری قوم کی ہزاروں جریب اراضی پاڑہ چمکنی قبائل میں تقسیم کی اور بستی سمیت ایک مسجد کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ یہ سب کچھ غیر قانونی دہشتگرد جماعت حکومت کے ناک کے نیچھے کررہے تھے اور اب بھی بالشخیل و ابراہیم زئی قوم کی اس اراضی پر پاڑہ چمکنی غیر قانونی قابض ہیں، جس پر خونریزی بھی ہوچکی ہے۔

محسود قبائل کے “جہادیوں” نے وادئ کرم کے طوری قبائل کے خلاف اس طرح کی کاروائیاں کی ہیں جو نور ولی نے اپنے کتاب “انقلاب محسود” میں شائع کی ہیں، اسی طرح پاراچنار شہر میں ہوئے درجن بھر خودکش حملوں میں سے دو کی ذمہ داری بھی محسود قبائل نے اُٹھائی ہے۔ جبکہ کتاب کے صفحہ 298 پر طالبان کے کرم ایجنسی میں پاک فوج اور ایف سی کے خلاف کاروئیوں کا بھی ذکر ہے۔ مارچ اور اپریل 2012 کرم ایجنسی (موجودہ کرم ضلع) میں بیزو سر اور ایک قلعے پر تشکیلات (حملے) کا ذکر ہے جس میں ایک درج سیکیورٹی فورسز کے اہلکار قتل ہوئے تھے اور بھاری اسلحہ مال غنیمت کے طور پر حاصل کرنے کا بھی دعوی کیا گیا ہے اور فوٹوز بھی شئیر کی گئی ہیں۔

صفحہ نمبر 404 پر فروری 2010 میں ٹل اور ہنگو کے درمیان پاک فوج کے زیرنگرانی “شیعہ لوگوں” کی مشترکہ کانوائے پر خودکش حملوں کی تفصیلات لکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “پاڑہ چنار سے شیعوں کو کانوائے کے ذریعے پشاور لے جایا جا رہا تھا جس پر فدائی اکرام اللہ باررود سے بھری گاڑی ٹکرائی، جس میں 10 پاک فوج کے اہلکاروں سمیت 25 کے لگ بھگ شیعہ مارے گئے”۔

دراصل یہ خودکش دھماکہ 5 مارچ 2010 کو کیا گیا تھا جس میں پاک فوج کے جوانوں سمیت دو درجن افراد قتل کردیئے گئے تھے۔ خودکش بمبار اکرام اللہ قاری حسین کے مرکز سے تربیت یافتہ تھے۔ اس دھماکے کی سہولتکاری اور پلاننگ ہنگو کے “تبلیغی مرکز” میں ہوئی تھی۔

کتاب کے صفحہ 412 پر اکتوبر 2015 میں فدائی شاکر ولد محبت خان کا کرم ایجنسی میں خودکش حملے کا ذکر ہے جس کا تعلق بند خیل حلقہ مکین سے بتایا گیا ہے۔

دراصل یہ دھماکہ 13 دسمبر کو پرانے عید گاہ میں لنڈا بازار میں کیا گیا تھا جس میں دو درجن غریب افراد قتل اور تین درجن سے زیادہ زخمی ہوئے تھے جو سردیوں سے بچنے کے لیے لنڈا بازار میں خریداری میں مصروف تھے۔ کالعدم لشکر جھنگوی نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس سے دہشتگرد تنظیموں کی اہل تشیع کے خلاف اتحاد واضح ہے اور کتاب میں اس پر مختلف جگہ بات کی گئی ہے۔ اس دھماکے میں ایک گھرانہ پورے کا پورا برباد ہوا، بغکی نامی گاؤں کے گوہر علی اپنے دو بیٹوں قیصر علی اور نعمان علی سمیت شہید ہوئے۔

کیا ریاست پاکستان اس کتاب میں درج معلومات کی بنا پر کوئی ایکشن لے گی؟ یا طوری کوئی ایف آئی آر درج کرکے قانونی چارہ جوئی شروع کرے گی کیونکہ اب تو دشمن نے اقرار جرم کرلیا ہے؟

امریکی ڈرونز، پاک فوج اور پاکستان کے سیکیورٹی فورسز نے ان دہشتگردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی ہیں اور بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، قاری حسین سمیت سینکڑوں دہشتگردوں کو ہلاک کردیا ہے جس کی تفصیل بھی اس کتاب میں پڑھی جاسکتی ہے۔

یہ کتاب آپ پڑھیں تو آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں جس میں محسود قبائل سمیت دیگر پشتون قبائل کے دہشتگردوں نے پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستان میں موجود اقلیتوں اور عوام پر خوکش حملے کئے ہیں، یوں طالبان اور سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ہاتھ پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ مگر یہ تنظیمیں نام بدل بدل کر پاکستان میں اسی طرح منظم ہیں اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ حتی نسل کشی میں مصروف ہیں، مگر اس پر کوئی تحقیق یا پروفائلنگ نہیں کی گئی ہے، دہشتگرد ملک بھر میں دندناتے پھرتے ہیں۔

موجودہ وزیراعظم عمران خان کیوں ڈرون حملوں اور دہشتگردوں کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کے خلاف تھے، میری سمجھ سے بالاتر ہے، اگر پاک فوج سوات، خیبر اور وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن نہ کرتی تو پاکستان کا حال آج شام سے مختلف نہ ہوتا، اور مجھے یہ بھی شک ہے کہ عمران خان نے مذہبی جونیت کو جو ہوا دی ہے وہ مستقبل دہشتگردی کو مزید فروغ دے گی اور اس دفعہ دیوبندی فرقہ کی بجائے بریلوی مسلک کے شدت پسندوں کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے جو دیوبندی مسلک کے دہشتگردوں سے مل کر ملک میں حکومت بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ بہ بھولیں کہ پاکستان کے بریلوی شدت پسندوں نے افغان طالبان کی کامیابی کو نیک شگون گردانا ہے اور پاکستان کے لئے مشعل راہ بھی۔۔۔۔ یعنی یہ کھیل اب مزید جاری رہے گا۔

کیا دہشتگرد و کالعدم جماعت سپاہ صحابہ ایک بار پھر وادئ کرم میں شیعہ سنی فرقہ ورانہ فسادات کی پلاننگ کررہے ہیں جس کے اہلکار عید نظر فاروقی کرم سے لیکر کوہاٹ تک دیگر اہل سنت قبائل کو اہل تشیع کے خلاف اکسا رہے ہیں؟


احمد طوری ایک سوشل ایکٹوسٹ ہیں جو سیاسی امور، سماجی و معاشرتی مسائل، تاریخ اور پشتون علاقوں کے معاہدات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں