تعلیم نظام میں رفامز کی ضرورت۔۔۔! (عرفان بنگش)

قبائلی ضلع پاراچنار بلکہ پورے ملک میں اب میٹرک کے امتحانات شروع ہیں اگرچہ تعلیمی نظام کی بات ہوجائے تو قبائلی پاکستان کا واحد پسماندہ علاقہ ہے جو کہ غریب ترین علاقوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں تعلیمی صورت حال بھی انتہائی مخدوش ہے- یہاں سرکاری تعلیمی ادارے تسلی بخش نہیں رہے ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی ہمیشہ ناکافی رہی ہے- یہاں المیہ کچھ اس طرح ہےکہ پرائیوٹ اداروں سے ہمیشہ سرکاری اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہوتی ہے -جبکہ نظام میں کمزوری ہے تعلیمی نظام کو یعنی ایک سکول کا نظام فقط اُسکے ٹیچرز ہی سہی سمت میں لا سکتے ہیں-

کیونکہ ایک مثالی معاشرے کو بنانے کے لئے اساتذہ کا کردار اور خدمت سرفہرست ہوتے ہیں۔ ہاں یہاں سرکاری سکولوں کو حکومت نے خود بھی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ۔ ڈسٹرکٹ میں موجود ایجوکشن آفیسر کی عدم توجہ کی وجہ سے اداروں کا حال دن بدن خراب ہوتا جارہا ہے اور سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طلباء کا مستقبل اندھیروں میں پھینکا جارہا ہے جو مجبوراً ہی تاریک راہوں میں نقل پر مجبور ہونگے ۔ لیکن حکومت کی عدم توجہ کے ساتھ ساتھ موجودہ مقامی سرکاری اساتذہ کرام کی بھی لاتعداد کوتاہیاں ہیں-

سرکاری اساتذہ اپنے فرائض انجام دینے کے بجائے مقامی سیاست، جرگے، اور دیگر کاموں میں مصروف عمل ہوگئے ہیں‌- اساتذہ کو تعلیم دوست ہونا چائیے ناکہ تعلیمی اداروں میں موجودہ ملازمین سیاسی دوست بن جائیں- بے شک سیاست بھی عبادت ہے -سیاست بھی خدمت ہے لیکن اساتذہ معاشرے میں ایک اہم ستون کے مانند ہیں – میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اگر سرکاری سکولوں کے اساتذہ اپنے علاقے کے مستقبل پر رحم کرکے سیاست اور دوسری کاموں سے اجتناب کرکے تعلیمی نظام پر توجہ دیں تو یقین مانیے بہت ہی کم وقت میں پاراچنار میں سرکاری اداروں کی کارکردگی بے مثال ہوگی ۔ ہاں سرکاری سکولوں میں نوکری کرنے والے باضمیر اور انسان دوست اساتذہ صاحبان کو سرخ سلام عرض کرتا ہوں۔21 ویں صدی میں رہنے کی باوجود ہمارے سرکاری سکولوں نے ہمیشہ مایوس کن نتائج دیے ہیں-

جبکہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر صاحب کی عدم توجہ کی وجہ سے تقریباً اکثر ہی ملازمین اپنی ذمہ داری چھوڑ کر غیر ضروری کاموں میں مبتلا ہوگئے ہیں اور ساتھ ساتھ اب امتحانات میں ذمہ دارن کے دورے بھی بہت دیکھنے کو ملتے ہے جو یقیناً بہت عجیب و غریب سا لگتا ہے۔ ایک پولٹیکل محرریا تحصیلدار کا بھلا ہالز میں کیا کام ہے؟ یہ کھلا تضاد ہے کہ جن کو سیکورٹی کی ڈیوٹی کرنی چائیے وہ امتحانی ہالز میں ہے اور جنکو تعلیمی نظام ٹھیک کرنا ہے وہ سیاست میں مصروف عمل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نقل کا لفظ اگرچہ بہت چھوٹا اور ہلکا سا ہے مگر اس کے نقصانات ناقابل تلافی ہیں۔

امتحانات کے دنوں میں کچھ ذمہ داران نقل پر پابندی لگانے کے لئے امتحانی ہالز کے دورے کر رہے ہیں جو میرے نزدیک یہ صرف اپنی فارملیٹی پوری کررہے ہیں۔ پورے سال تعیلمی نظام میں ریفارمزلانے کے بجائے اب آئے روز نقل پر پابندی کا لیبل استعمال کرکے پوائنٹ‌سکورنگ میں مصروف ہیں۔ دراصل اس طرح امتحانی ہالز کو نقل کرنے والوں کی آماجگاہ بنا کر دکھایا جاتا ہے – جس کی وجہ ہالز بلیک لسٹ ہوجاتے ہیں جوکہ علاقہ کے طلباء کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے ۔

جبکہ پاراچنار میں پرائیویٹ سکول مافیا سے اب کاروباری مراکز بن گئے ہیں جو معیار کی بجائے مقدار پر توجہ دینے لگے ہیں۔ یاد رہے پاراچنار طلباء پر ہمیشہ کی طرح امتحانات میں غیر ضروری سختیاں کی جاتی ہیں- جس سے طلباء کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں – کوہاٹ بورڈ نقل کا بہانہ بنا کر مایوس کن رزلٹ دیے دیتا ہے دراصل یہاں نقصان صرف طلباء یعنی ہمارے مستقبل کا ہوجاتا ہے طلباء دونوں طرف سے متاثر ہوجاتے ہے۔

میں آخر میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ جو اساتذہ غیر ضروری سرگرمیوں میں مصروف ہیں اُن پر پابندی لگا کر سرکاری سکولوں کی معیار کو بہتر بنانے میں صوبائی اور فیڈرل حکومت ضرور کردار ادا کریں اور اساتذہ صاحبان سے اپیل کرتے ہے کہ وہ تعیلم دوستی اپنا کر وطن کو تعیلم یافتہ بنائے ۔۔ پروردگار عالم ہمارے گلشن پاراچنار کو ہمیشہ ترقی دے اور پرُ امن رکھے ۔۔ آمین


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں