بے بس عوام کا بہادر لیڈر شہید نواز عرفانی۔۔۔! (عرفان بنگش)

سالار شہداء کرم شہید عرفانی ہی ہے جو آج بھی ہمارے دلوں پہ راج کر رہا ہے۔ آج بھی ہم نے شہید کے مشن کو زندہ رکھا ہے شہید کے مشن میں ہی ملتِ پاراچنار کی سلامتی، خوشحالی اور بقا ہے۔ اور شہید کے بتائیے ہوئے راستے پہ گامزن ہے۔

پاکستان کے خوبصورت شہر گلگت میں روشن ہونے والا یہ ستارہ علامہ شیخ محمد نواز عرفانی (شہید آغا عرفانی) آسمان پاراچنار پر چودہ سال تک ملت کی رہنمائی کرتے ہوئے، انتہائی جرات و شجاعت کے مظاہرے کرتا ہوا 26 نومبر 2014کو اسلام و پاکستان دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہو کر بظاہر ڈوب دیا مگر جاتے جاتے قوم میں ایسی روشنی بکھیر گیا۔

جس کے طفیل آج بھی حق و صداقت کا پرچم لہرا رہا ہے اور جمہوریت کے سائے تلے سبز ہلالی پرچم سربلند دکھائی دے رہا. شہید علامہ نواز عرفانی ظاہری تو ہم سے جدا ہوگئے لیکن وہ مسلسل ہمارے درمیان ہیں، ہمیں آج تک یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ جا چکے ہیں، ان کی خوشبو، ان کی فکر،، کردار، نظریہ ان کی شخصیات کے مختلف پہلو آج بھی ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔

ملتِ پاکستان و پاراچنار کا محافظ شہید عرفانی کی بہادری اور خدمت کی پرچم آج بھی سر زمینِ پاراچنار میں لہررہا ہے۔ جیسا کہ پاراچنار کی ترقی کے لئے اچھے لیڈر کا ہونا ضروری ہے۔ جس کے بغیر ترقی کی اُمید خواب ہے ۔ لیڈر شپ یعنی قیادت یا رہنمائی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ حقیقی لیڈر اپنے معاشرے اور ریاست کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔

معروف دانشور ولیم ورڈزور تھ کا کہنا ہے کہ ایک کمزور لیڈر لوگو ں کو صرف بتاتا ہے، ایک اچھا لیڈر تشریح کرتا ہے اور ایک بہترین لیڈر کر کے دکھاتا ہے جبکہ عظیم ترین لیڈر دوسروں کو ہر لحاظ سے متاثر کرتا ہے بااثر لیڈر خراب حالات میں بھی اپنے کردار اور صلاحیتوں سے کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔

سر زمین پاراچنار میں شہید عرفانی ہی ایسے لیڈر تھے جو ہر طرح کے حالات میں مسائل کا حل نکال لیتے ہیں کیونکہ وہ مسائل کے بجائے ان کے حل پر نظر رکھتے ہے۔

شہید آغا عرفانی ایک با اثر لیڈر تھے اور ان کی کی خصوصیات میں یہ شامل تھا کہ وہ جذباتی نہیں تھا بلکہ معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرتے تھے، قوم کی بقا کے لئے اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے میں زیادہ وقت صرف کرتے تھے۔ شہید عرفانی سچائی اور احترام کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ وہ دوسروں کو اپنی صلاحیتوں کو بہتر سے بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو قوم کا خادم کہتے تھے۔

ایسے لیڈر حقیقت میں دوسروں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور انہیں فائدہ پہنچاتے ہیں لیکن لیڈر شپ اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ جو ہر کسی کی گنجائش میں ہو، یہ شہید عرفانی ہی ہے جو آج بھی ہمارے دلوں پہ راج کر رہا ہے۔

آج کے تحقیق کے مطابق پاراچنار کرم ایجنسی کے عام لوگوں میں بہت زیادہ مایوسی پائی جاتی ہے اور تقریباََ عام لوگ آج کے لیڈروں پر کبھی زیادہ اعتبار نہیں کرتے۔ لیڈر شپ بہت ہی محنت طلب اور سخت جدو جہد کی متقاضی ہے۔ تب ہی مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

ذاتی مقبولیت کی خواہش نہیں ہوتی، اصل چیز کردار ہوتا ہے جو مخلص لیڈر شپ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔لیڈر شپ کے تقاضوں پر پورا اترنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اعلیٰ قیادت اپنے معاشرے اور ریاست کو بدترین معاشی بدحالی اور جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے سے نکالنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک نئی راہ اور پہچان دیتی ہے ۔ لہٰذا قوموں کے عورج و زوال کا سبب دراصل بہترین یا بدترین قائدین ہی بنتے ہیں۔

جیسا کہ آنحضرتﷺ کائنات کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ آپ نے جاہلیت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں انسانیت کے وہ اعلیٰ معایر روشن کئے کہ ہر طرف اسلام کا بول بالا ہوگیا۔
آپﷺ کی قیادت میں ایک ایسا معاشرہ اور ریاست قائم ہوئی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔

علم سیاسیات کے مطابق لیڈر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو پیدائشی طرف پر ایسی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہی، جن کی بنا پر وہ ایک نظریہ یا اصول وضع کرتے ہیں اور پھر اس کی بنا پر لوگوں کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہیں۔

یہ نظریہ اور اصول ہی ہے جس کی بنیاد پر ایک لیڈر قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی قیادت میں وہ قوم ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوی ہے۔ ابراہیم لنکن، قائداعظم، ماوزے تنگ اور امام خمینی اور شہید عرفانی جیسی شخصیات کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کس طرح معاشی اور سیاسی لحاظ سے شکست خوردہ اور ایک منتشر زدہ سماج اور ریاست کو ان رہنماؤں نے ایک نئی راہ پر گامزن کیا۔

آج کرم ایجنسی سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں کشیدگی، تصادم اور اندرونی انتشار میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو کہ عالمی قیادت کے فقدان کا سبب ہے۔ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپا دھاپی کی سیاست غلبہ پارہی ہے۔خود غرضی،، نفسانفسی نے انسانیت کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق 86فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ آج دنیا کو قیادت کے بحران کا سامنا ہے رائے دہندگان نے زوال پزیر نمائندہ جمہوریت کو دنیا کے پانچ سرفہرست رجحانات میں سے ایک قرار دیا۔

عالمی اقتصادی فورم کی رپورٹ کے مطابق جغرافیائی سیاسی تنازعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ آج پاراچنار کے ساتھ ساتھ دنیا میں مجموعی طور پر لیڈر شپ کا بحران ہے۔

اور 2006 میں جب طالبانائزیشن کا خطرہ منڈ لانے لگا تو ساری دنیا میں ایک ہی کہرام مچ گیا ۔ طالبان کا نام سنتے ہی پاک افغان سرحد پر دونوں جانب سے بہادری کے حوالے سے ساری دنیا کے مشہور قبائل سے بھی خوف کے باعث بندوقیں گرجاتی تھی۔

مگر شہید آغا عرفانی کی قیادت میں جوانوں، بوڑھوں الغرض ہر طبقے کے افراد نے بڑی بہادری سے اپنے وطن کا دفاع کیا۔ وہ قیامت تک کرم کے طوری بنگش کی تاریخ کا سنہرا باب رہے گا۔ علاقے کے بزرگوں سے لیکر جوانوں تک نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا ہے ان کے بہادری کا سارا کریڈٹ شہید آغا جان عرفانی صاحب کو جاتا ہے خ۔ کیونکہ شہید ہی تھے جنہوں نے عوام کو شعور اور بہادری کا درس دیا۔ ظالم کے خلاف میدان جنگ میں عوام کے ساتھ ہی نکلے۔

اللہ تعالیٰ سے ہم دعاگو ہے کہ ملتِ پاراچنار کو ایک بار پھر شہید عرفانی جیسے لیڈر سے نوازنے تاکہ پاراچنار کے بے بس،غریب عوام کے حقوق پامال نہ ہوجائے۔ آمین ثمہ آمین۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں