ایک بڈھے کی جہالت چڑھتی جوانی۔۔۔! (عاطف شیرازی)

کسی ملک کے ایک بزرگ سیاسی رہنما ریلوے کے وزیر ہیں عوامی لیڈر ہیں، وہاں خاصا مقبول ہیں، اپنے حلقے سے سوا لاکھ سے زائد ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں عوام کی کیثر تعداد ان کو چاہتی لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

ایک دن ایک سیاسی کارکن نے مجھ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو عوامی لیڈر کہتے ہیں، پیارے انسان ہیں ان کو پارلیمنٹ میں پہنچانے والی عوام پڑھی لکھی اور ان سے بھی شائستہ رویہ کی توقع رکھتی ہے، کیونکہ وہ مسلسل ساتویں دفعہ پارلیمنٹرین بنے ہیں لیکن آج کل مخالفین خصوصاً نوجوان لیڈر اور بزرگ سیاستدان کےخلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں کسی طور ایک وفاقی وزیر کی نہیں لگتی۔

کبھی نوجوان رہنما کو بلو رانی کہتے اور جگت کرتے ہیں کہ مجھے ڈر ہے یہ اپنے کپڑے پھاڑ کر تھانے نہ چلا جائے کہ مجھے بزرگ نے چھیڑا ہے ہیںکبھی جگت کستے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کو بلو کے گھر جانے کی جلدی ہے، اپنے زو معنی جملوں پر پھر زومعنی انداز سے ہنستے ہیں اور جتاتے ہیں کہ وہ بہت بڑے اداکار ہیں حالانکہ ان کے اس بھونڈے انداز اور ذومعنی بیانات سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان یا د آجاتا ہے کہ” جب عالم بوڑھا ہوتا ہے تو اس کی عقل جوان ہوتی ہے اور جب جاہل بوڑھا ہوتا ہے تو اس کی جہالت جوان ہوتی ہے ،ـ”

سیاسی کارکن نے مجھ سے کہا کہ پارلیمان عوامی نمائندوں سے مہذب رویے کی متقاضی ہے، ان کے رویہ ہم چاہنے والے اور پیروکاروں کے اخلاق بناتی ہے، عمر کے اس حصہ میں غیر شائستگی کسی طور بھی ایک بزرگ سیاستدان کو زیب نہیں دیتی ہے۔ ایسے غیر شائستہ بیانات سے ان کی عزت اور وقار میں اضافہ نہیں ہوسکتا، ہروقت کی جگت بازی ان بزرگ وزیر کو قطعی زیب نہیں دیتی ہے ۔اگر یہ جگتیں وہ مقتدر لوگوں کو خوش کرنےکے لیے کرتے ہیں تو اس سے عوام کودلچسپی نہیں ہے۔ وہ عوام کو خدارا مہذب رہنےدیں ۔

عوام ان کو دیکھتی ہے ان کو پسند کرتی ہے ۔ ان کو چاہتی ہے کہیں ایسا نہ ہو اُن کے جگتوں پر مبنی رویے آپ کو عوام سے دور کردیں۔ سیاست سے انہوں نے الگ ہونا ہے تو وہ عزت کما کر الگ ہو۔

اچھے رویے کی وجہ سے ان کو سیاست میں یاد رکھاجائےناکہ ان کی جگتوں کی وجہ سے ۔وہ کسی ٹھیٹر میں تو کام نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی حادثاتی طور پر وہ پارلیمنٹ پہنچے ہیں ،ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔

وہ ووٹ کے، ووٹر کے، پارلیمان کے تقدس کے ضامن ہیں۔ اگر وہ طاقتور حلقوں کو خوش کرنے کے لیے جگتیں لگاتے ہیں تو ان کو بتلایا جائے کہ ان کا کام قانون سازی میںحصہ لینا ہے نا کہ مخالفین کو جگتیں مارناہے۔

گو کہ ان کی اب یہ عادت پختہ ہوگئی ہے۔ مگر وہ مخالفین کو مہذب انداز میں بھی آڑے ہاتھوں لے سکتے ہیں ان کے خلاف تنقید کرسکتے ہیں پھر بھی ان کو کو میڈیا پر اتنی ہی کوریج ملے گی جتنی ان کو اب ملتی ہے، کارکن نے کہا کہ بزرگ ساتویں دفعہ پارلیمنٹ جا رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنے اس خوف سے باہر نہیں نکلے کہ اگر انہوں نے جگتیں نہ ماری ذومعنی انداز گفتگو نہ اپنایا تو ان کو میڈیا پر کوریج نہیں ملے گی۔ ایسا نہیں ہے وہ اپنے میں تھوڑا سا حوصلہ پیدا کریں کہ وہ بزرگ پارلیمنٹرین ہیں سنجیدہ گفتگو سے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں نہ کہ جگتیں مار کر عوام کو ہنسائیں، نیوز میڈیا کو انٹرٹینمنٹ میڈیا نہ بنائیں ، انٹرٹینمٹ چینلز کا کام وہ مت کریں۔ وہ کسی ملک کے تباہ حال ریلوے کو اگر پٹری پر بحال کرتے ہیں تو ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ ورنہ کوئی ذومعنی انداز انکے لیے بھی اپنا سکتا ہے توبزرگوں کے ساتھ بدتمیزی مناسب نہیں ہوتی ہے۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں