پاکستان میں تعلیمی پسماندگی کی وجوہات ۔۔۔! (میر افضل خان طوری)

کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے اس کے عوام کا تعلیمی معیار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ دنیا کے جن ممالک نے آج تک جو بھی ترقی کی ہے وہ صرف تعلیم کے بل بوتے پر ممکن ہوئی ہے۔ علم کی روشنی ہی قوموں کو انھیروں سے نکالتی ہے۔ دنیا کی تمام تر ترقی اور ایجادات تعلیم ہی کے مرہون منت ہیں۔

ترقی یافتہ قوموں کی ترجیحات میں تعلیم کا مسئلہ ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔ جن ملکوں نے تعلیم کو اہمیت دی اور اپنے قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا وہ آج ساری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم یہ ہے کہ “جاننے والے اور نہ جاننے والے ہرگز برابر نہیں ہوسکتے”۔ ارشاد نبوی (ص) ہے کہ “ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض کیا گیا ہے”۔ قرآن مجید میں بار بار انسان کو زمین اور کائنات کی ساخت پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ زمین و آسمان کی بناوٹ اور موجودات کے بارے میں علم حاصل کرنے کی انسان کو دعوت دی گئی ہے۔

مگر ان سب کے باوجود پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا آج تعلیمی سطح پر باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ پورے مسلم ورلڈ میں جتنے رسرچ سنٹرز ہیں وہ جاپان کے صرف ایک شہر ٹوکیو میں موجود رسرچ سنٹرز کے برابر بھی نہیں ہیں۔

پاکستان کے کل یونیورسیٹیوں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے جبکہ جاپان کے صرف ایک شہر ٹوکیو میں ایک ہزار یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ پاکستان میں 50 فیصد سے زیادہ سکولوں میں آج بھی ٹوئیلٹ موجود نہیں ہیں ۔ ہزاروں پرائمری سکولوں میں بچوں کو بیٹھے کیلئے ٹاٹ تک موجود نہیں ہیں۔ سینکڑوں سکول اساتذہ کے نہ ہونے کیوجہ سے بند پڑے ہیں۔ اساتذہ کی ٹرینگ اور تعلیم کا معیار بھی پست ترین ہے۔ پاکستان میں آج بھی لاکھوں بچے معاشی مشکلات کی وجہ سے سکول نہیں جا پا تے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جو تعلیم پر اپنے بجٹ کا سب سے کم حصہ خرچ کرتا ہے۔

پاکستان میں انجنیئرنگ ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے یونیورسٹیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پورے ملک میں کوئی ایک بھی بین الاقوامی معیار کی ٹیکنیکل یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔ برائے نام ٹیکنولوجی کونسل کا قیام صرف دو سال پہلے عمل میں آیا ہے مگر وہ بھی انجنیئرنگ مافیا کی وجہ سے آج تک فعال نہیں ہو سکا ہے۔

پورے ملک کے سکولوں اور کالجوں میں نقل کی بھرمار ہے۔ اساتذہ ، بورڈ مافیا اور والدین مل کر طلباء کے مستقبل کو تباہ و برباد کر رہے ہیں ۔ بہت سے پرائیویٹ سکول پیسے دے کر پورے پورے حال خریدتے ہیں تاکہ انکے بچے اچھے نمبروں کے ساتھ پاس ہوسکے۔ اس گھناؤنے کھیل میں بچوں کے والدین بھی برابر کے شریک ہیں۔

مگر ان سب کوتاہیوں کے باوجود ہم فلسطین، شام، برما، لبنان اور یمن کو فتح کرنے نکلے ہیں۔ ہم امریکہ اور جاپان بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
جب تک ہم اپنی ترجیحات کو نہیں پہچانتے ، جب تک ہم مل کر اپنی تعلیمی پسماندگی کا کوئی مستقبل حل تلاش نہیں کرتے، جب تک ہم اپنے اخلاقی ، معاشی اور معاشرتی اہداف طے نہیں کرتے ، تب تک ہمارا ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں