شناختی کارڈ ۔۔۔۔! (میر افضل خان طوری)

ریاست اپنے شہریوں کی پہچان کو یقینی بنانے کیلئے عوام کو شناختی کارڈ ایشو کرتی ہے۔ ہر شہری کو اپنا شناختی کارڈ پاس رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ یہ دنیا میں تقریبا ہر ملک میں ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ہر شہری کے پاس اپنا شناختی کارڈ ہر وقت موجود ہو۔ سرکاری حکام ضرورت پڑنے پر اپنے شہری سے شناختی کارڈ طلب کر سکتے ہے۔ لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔

مملکت پاکستان میں شہریوں کو ہر چیک پوسٹ اور ہر راستے پر کھڑی پولیس کو شناختی کارڈ دکھانا لازمی ہوتا ہے۔ اکثر شہریوں کو دن میں 10 سے 15 بار بھی شناختی کارڈ دکھانے کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔ خیر یہ کوئی بڑی تکلیف نہیں ہے۔ شناختی کارڈ دکھانے پر زیادہ سے زیادہ چند منٹ لگتے ہیں۔ پاکستانی شہری اس کام کو بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔ وہ سب اس پر بڑے خوش نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح سے پاکستان دشمنوں سے ان کی حفاظت ہوگی اور دہشتگردی کے واقعات پر قابو پانے میں مدد بھی ملے گی۔

مگر اب معاملہ اس کا لٹ ہو گیا ہے۔ یہ شناختی کارڈ آج کل بڑا جان لیوا بھی ثابت ہونے لگا ہے۔ متعدد بار شناختی کارڈ چیک کر کے لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے۔ وہ کراچی کے شیعہ مسلمان ہوں، کوئٹہ کے ہزارہ مسلمان ہوں، کوہستان میں گلگت بلتستان کے اہل تشیع ہوں، مستونگ میں شیعہ زائرین ہوں، بلوچستان میں پنجاب کے مزدور ہوں یا خود سرکاری سیکیورٹی اہلکار ہوں سب کو شناختی کارڈ رکھنے کیوجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ ان سارے واقعات میں قتل ہونے والوں میں اکثریت اہل تشیع مسلمانوں کی ہے۔

اب پاکستان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ شناختی کارڈ رکھو تو پشیمان اور نہ رکھو تو پشیمان۔ رکھو تو دہشتگر زندہ نہیں چھوڑتے اور نہ رکھو تو سیکیورٹی اداروں کے لوگ نہیں چھوڑتے۔

حکومت کو ایسے واقعات کی زمہ داری انڈیا، افغانستان اور ایران پر ڈلالنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا نہایت ضروری ہے۔ سب سے پہلے اپنی کوتاہیوں کو جانچنا ہوگا۔ ان کو پتہ کرنا چاہیئے کہ دہشت آخر آئے کیسے ؟ کس نے سہولت کاری کی؟ ہر جگہ کسی کی مدد سے آزاد گھونتے ہیں اور جہاں چاہیں کاروئیاں کرتے ہیں؟

اپنے شناختی کارڈ کا بہت خیال رکھیئے گا۔ اسی میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ زندہ بچے تو غازی مر گئے تو شہادت نصیب ہوگی۔اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں