انتخابی اصلاحات کے کھوکھلے مطالبات! (ساجد خان)

انتخابات کسی بھی معاشرے کا اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے کہ جس میں عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی پسند کے سیاست دان کو ووٹ دے کر حکومت کی ذمہ داری سونپ سکیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے بہت سے انتظامات کئے ہیں اور اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ کسی طرح بھی عوام کے حقوق پر ڈاکہ نا ڈالا جا سکے،یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں مخالف امیدوار کو جب الیکشن میں شکست ہوتی ہے تو وہ اپنی شکست کا الزام دوسروں پر عائد کرنے کے بجائے اپنی شکست تسلیم کر لیتا ہے۔

پاکستان کی اگر بات کریں تو ہماری تاریخ میں شاید ہی ایسا کوئی الیکشن گزرا ہو،جس کے انعقاد کے بعد شکست سے دوچار ہونے والی سیاسی جماعت نے دھاندلی کا الزام نہ لگایا گیا ہو۔
ہمارے معاشرے میں یہ ایک سیاسی روایت بھی بن چکی ہے کہ الیکشن جیتنے والی جماعت اسے سب سے زیادہ صاف و شفاف گردانتی ہے جبکہ شکست کھانے والی جماعت کو وہی الیکشن تاریخ کا سب سے زیادہ دھاندلی زدہ نظر آتا ہے۔

ہم ماضی قریب کی بات کریں تو 2002 کے الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز نے نتائج مسترد کرتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگایا مگر مسلم لیگ ق نے اس الیکشن کو شفاف قرار دیا کیونکہ انہیں اقتدار حاصل ہو چکا تھا۔ 2008 میں بھی دھاندلی کی آوازیں اٹھیں مگر فتح یاب ہونے والی جماعت پیپلزپارٹی نے اسے شفاف انتخابات قرار دیا۔ اس کے بعد 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات نے تو شدت اختیار کر لی۔

پیپلزپارٹی نے اس الیکشن کو آر اوز کا الیکشن قرار دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے چار حلقوں کی دوبارہ گنتی کی استدعا کی۔

پاکستان مسلم لیگ نواز نے الزامات مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا اور یوں چار حلقوں سے شروع ہونے والا معاملہ اتنا بڑھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو اسلام آباد میں ایک سو بیس دن سے زائد کا دھرنا تک دینا پڑا۔
چار حلقے تو نہ کھلے لیکن احتجاج سے مجبور ہو کر حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لئے کمیٹی قائم کرنا پڑ گئ تاکہ مستقبل میں صاف و شفاف انتخابات کی راہ ہموار کی جا سکے۔

اس کمیٹی کے اجلاس ہوتے رہے،حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے شریک ہوتے رہے لیکن اصلاحات کے لئے کیا سفارشات پیش کیں اور اس پر کیا عمل درآمد کیا گیا،یہ کوئی نہیں جانتا مگر گزشتہ سال ہونے والے الیکشن کے بعد ایک بار پھر سے دھاندلی کا شور سنا گیا لیکن ماضی میں دھاندلی کا شکوہ کرنے والی پاکستان تحریک انصاف ان الزامات کو یکسر مسترد کرتی نظر آ رہی ہے کیونکہ اب انہیں اقتدار حاصل ہو چکا ہے۔
پاکستان میں یہ صورتحال گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

کل کی اپوزیشن دھاندلی اور انتخابی اصلاحات کا ڈھول پیٹتے جب اقتدار حاصل کرتی ہے تو وہ ماضی میں کۓ گۓ انتخابی اصلاحات کے سب مطالبات بھول جاتی ہے۔اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابی اصلاحات کے حق میں نہیں ہے صرف اپنی شکست تسلیم کرنے سے بچنے کے لئے دھاندلی کا الزام لگایا جاتا ہے شاید انہیں احساس ہو جاتا ہے کہ کمزور انتخابی نظام ہی اقتدار میں آنے کا آسان طریقہ ہے اور آپ کو اس کے لئے عوام کے لئے فلاحی کام کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے،بس کچھ نادیدہ طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے بعد آپ اقتدار کے تخت پر باآسانی بیٹھ سکتے ہیں لیکن یہ خوش فہمی ہر حکمران کو رہی ہے کہ وہ عوامی خدمت کے بجائے کمزور انتخابی قوانین کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ اقتدار حاصل کر لے گا مگر یہ خواہش اکثر و بیشتر پوری نہیں ہوتی کیونکہ یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں بلکہ کسی اور کے پاس ہوتا ہے۔
ہم ماضی میں انہی الزامات کی بنا پر ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکے ہیں،ملک کو دو لخت ہوتا دیکھ چکے ہیں مگر پھر بھی اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرنا چاہتے۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں