داعش کے ’خلیفہ‘ ابوبکر البغدادی کون ہیں؟ ایسی معلومات جو آپ پہلے نہیں جانتے ہونگے

بغداد (ویب ڈیسک) ابوبکر البغدادی، نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کے مفرور ’خلیفہ‘ دنیا کے مطلوب ترین شخص ہیں اور امریکہ کی حکومت نے ان کے سر کی قیمت دو کروڑ 50 لاکھ ڈالر رکھی ہے۔

وہ تین سال سے زیادہ عرصے سے گرفتاری سے بچ رہے ہیں اور اپنی حفاظت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ آج تک وہ صرف ایک دفعہ نظر آئے ہیں جب سنہ 2014 میں انھوں نے موصل میں ایک خطبے میں اپنی ’خلافت‘ کا اعلان کیا تھا۔

رواں ہفتے ابوبکر البغدادی ایک بار پھر نظر آئے۔ ان کی 18 منٹ لمبی ویڈیو انٹرنیٹ پر سامنے آئی ہے جس میں وہ اپنے حامیوں کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آرہے ہیں لیکن اس ویڈیو میں بھی حسب توقع ان کے موجودہ پتے کا کوئی سراغ نہیں۔

تو اس وقت وہ کہاں ہیں، ان کی کھوج کس طرح لگائی جا رہی ہے، اور امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی پیچیدہ اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ابھی تک انھیں کیوں نہیں ڈھونڈ سکے؟

اطلاعات کے مطابق تین نومبر سنہ 2016 میں بغدادی نے ایک ایسی غلطی کر دی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے تھے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل پر قبضے کے لیے لڑائی جاری تھی اور امریکہ کی رہنمائی میں اتحادی افواج دولت اسلامیہ کو پیچھے دھکیل رہی تھی۔

ابوبکر البغدادی نے شہر سے باہر کسی جگہ سے اپنے حامیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک 45 سیکنڈ کی ریڈیو کال کی جس کو اتحادی افواج کے جاسوس جہازوں نے ریکارڈ کر لیا۔ آواز کو ابوبکر البغدادی کی آواز سے ملایا گیا اور تصدیق کے بعد فوری کارروائی کی گئی۔

اس وقت تک دولت اسلامیہ کے لیڈر کے محافظوں نے انھیں وہاں سے نکال لیا تھا اور یقیناً گزارش بھی کی ہوگی کہ وہ دوبارہ کبھی براہ راست ریڈیو کا استعمال نہ کریں۔

سنہ 2001 میں 9/11 کے واقعے کے بعد اور دو مئی 2011 تک جب امریکہ کے نیوی سیلز نے پاکستان کے شہر آیبٹ آباد میں اپنی کارروائی کی، امریکہ کے حساس اداروں کو اسامہ بن لادن کو دھونڈنے اور مارنے میں تقریباً 10 سال لگے۔

امریکہ کی قومی سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) اور برطانیہ کی ایجنسی ’جی سی ایچ کیو‘ دنیا کے گرد سگنلز انٹیلیجنس جو ’سیگ انٹ‘ کہلاتی ہے، نگرانی، مداخلت اور ظاہر اور خفیہ بات چیت کو ڈیکوڈ کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔

پرانے زمانے میں مطلوب دہشتگرد بعض اوقات اپنے موبائل فون کے استعمال یا ایک ہی جگہ پر دیر تک انٹرنیٹ پر رہنے کی وجہ سے اپنا لوکیشن ظاہر کر دیتے تھے۔

اس معاملے میں بن لادن کافی عقلمند تھے اور کافی حد تک بغدادی بھی ایسے ہی ہیں۔

القائدہ کے رہنما کو آخر کار ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں ڈھونڈ لیا گیا اور ایسا ان کے کسی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو براہ راست استعمال کرنے سے نہیں ہوا، بلکہ ان کا سراغ ان کے قاصد کی وجہ سے لگا جو اپنے ہاتھوں سے ان کے پروپگینڈا ویڈیوز اور پیغامات اس مقام تک پہنچاتے تھے جہاں سے ان کو انٹرٹیٹ پر اپ لوڈ کیا جاتا تھا۔

بغدادی کی انٹرنیٹ پر ویڈیو شائع ہونے کے بعد یقیناً امریکہ کی انٹیلیجنس نے دوبارہ وہی کرنے کی کوشش کی ہوگی جس سے بن لادن پکڑے گئے تھے لیکن بغدادی کے محافظ اتنے عقلمند اور محتاط ہوں گے کہ وہ ایسی غلطی نہ کریں۔

ان کے ساتھ چند قریبی معتمد ساتھی ہوں گے اور وہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہے ہوں گے۔

’بہترین حفاظتی نظام‘

ابوبکر البغدادی سنہ 1971 میں عراق کے شہر سامرا میں پیدا ہوئے اور ان کا اصلی نام ابراہیم اودہ البدری ہے۔

وہ ابتدا سے ہی کافی مذہبی تھے اور سنہ 2004 میں عراق میں امریکی افواج کے حملے کے بعد انھوں نے امریکہ کے زیر انتظام نظربندی کیمپ، ’کیمپ بوکا‘ میں کچھ وقت گزارا۔ وہاں انھوں نے دوسرے قیدیوں بشمول عراق کے حساس اداروں کے سابق اہلکاروں کے ساتھ اتحاد بنایا۔

لندن کے رائل یونائٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ میں مشرق وسطیٰ کے معاملات کے ماہر مائکل سٹیفن کہتے ہیں کہ ’انھوں نے صدام کے سابق انٹیلیجنس اہلکاروں سے کام کیسے کیا جاتا ہے سیکھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کی داخلی حفاظت کا نظام زبردست ہے اس کی کچھ وجہ ان کے ذہنی اختلال کی کیفیت ہے۔‘ وہ اس وقت کہاں چھپے ہوئے ہیں؟ یقیناً وہ ابھی بھی عراق اور شام کے سرحدی علاقے میں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ پہلے سے سرحد کے آر پار قائم سمگلنگ کے جال کا فائدہ اٹھائیں گے۔ وہ پیسوں کا استعمال کر کے (مقامی) قبیلوں کے بیچ اپنا راستہ بنا لیں گے۔‘

عراق کے سابق مضبوط رہنما صدام حسین اپنی حکومت کے گرنے کے بعد نو مہینوں تک چھپے رہے تھے۔

امریکہ کے آپریشن ’ریڈ ڈان‘ کے تحت انھیں ان کی جائے پیدائش کے علاقے تکریت میں تہہ خانے سے ڈھونڈ لیا گیا جب ایک مخبر نے کروڑوں ڈالر کے بدلے ان کے خفیہ ٹھکانے کا پتہ دے دیا۔

لیکن بغدادی کے گرد ایسے مخبر کو داخل کرنا جو ان کے ساتھ غداری کرے بہت مشکل ہو گا۔ ان کے ارد گرد بہت تھوڑی تعداد میں قریبی ساتھی ہوں گے جو بے حد وفادار ہوں گے، لالچ سے ان کے دل نہیں بدلے جا سکیں گے۔

اگر دنیا کا مطلوب ترین شخص انٹرنیٹ سے دور ہے، موبائل فون کا استعمال نہیں کر رہا ہے اور ممکنہ طور پر مسلسل اپنا ٹھکانہ بھی بدل رہا ہے ایسی صورت میں امریکہ اور مغرب کا انھیں کبھی پکڑنے کے کیا امکان ہیں؟

آخر میں ہو سکتا ہے کہ یہ کھیل سارا قسمت اور صبر کا ہو: شاید کوئی متجسس دیہاتی انھیں کہیں دیکھ لے اور اس کی اطلاع دے دے۔ یا کوئی ڈرون غیر معمولی گاڑیوں کا قافلہ دیکھ لے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دولت سالامیہ کا کوئی تھکا ہوا اور مایوس اہلکار یہ فیصلہ کر لے کہ اب آخر کار وقت آ گیا ہے کہ وہ انعام لے کر اپنی باقی زندگی آرام سے چھپ کر گزارے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں