امریکہ ایران کشیدگی: B-52 بمبار طیارے قطر پہنچ گئے

دوحہ (ویب ڈیسک) امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیشِ نظر امریکی حکام نے فضائی دفاع کے میزائل سسٹم ’پیٹریاٹ‘ کو اپنے جنگی بحری بیڑے یو ایس ایس آرلنگٹن کے ہمراہ مشرق وسطیٰ کی جانب روانہ کر دیا ہے۔

یو ایس ایس آرلنگٹن جا کر خلیجِ فارس میں پہلے سے تعینات یو ایس ایس ابراہم لنکن سے جا ملے گا۔

پنٹاگون کا کہنا ہے کہ بمبار B-52 طیارے بھی قطر میں امریکی فوجی اڈّے پر اُتر گئے ہیں۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ فوجی تعیناتیاں ایران کی جانب سے خطے میں امریکی افواج کو لاحق خطرے کے پیشِ نظر کی جا رہی ہیں۔

امریکہ نے ان دھمکیوں کی نوعیت سے متعلق بہت کم معلومات دی ہیں جنھیں ایران نے ’احمقانہ‘ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ یہ تعیناتیاں نفسیاتی جنگی حربہ ہیں جن کا مقصد ان کے ملک کو دھمکانا ہے۔

ادھر ایران کے خبر رساں ادارے اثنا نے ایک سینیئر ایرانی عالم یوسف تباتبائی نژاد کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فوجی بیڑے کو ’ایک میزائل سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔‘

جمعے کے روز دیے گئے ایک بیان میں پینٹاگون کا کہنا تھا کہ امریکہ ایران کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا لیکن واشنگٹن ’خطے میں امریکی افواج اور مفادات کی حفاظت کے لیے تیار ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ محکمہِ دفاع ایرانی حکومت کی سرگرمیوں کی قریب سے نگرانی کر رہا ہےاور کسی ممکنہ حملے کے پیشِ نظر فضائی دفاع کے میزائل سسٹم ’پیٹریاٹ‘ کو بھی تعینات کیا جا رہا ہے۔ یہ میزائل سسٹم بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور جدید جنگی طیاروں کی روک تھام کے لیے بنا ہے۔

امریکی حکام نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ یو ایس ایس آرلنگٹن کو پہلے ہی خطے میں بھیجے جانے کا ارادہ تھا لیکن اس کی تعیناتی اس وقت اس لیے عمل میں لائی گئی ہے تاکہ بہتر کمانڈ اور کنٹرول کی صلاحیتیں فراہم کی جا سکیں۔

گذشتہ اتوار امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا کہنا تھا کہ ان فوجی تعیناتیوں سے ایرانی حکومت کو ‘واضح اور دو ٹوک پیغام بھیجا جائے گا‘ کہ اس خطے میں امریکی مفادات پر کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

امریکی بحریہ کی اطلاع کے مطابق، ابراہم لنکن نامی طیارہ بردار امریکی بحری جہاز صدر ٹرمپ کے حکم پر بحیرہ روم سے بحیرہ احمر میں داخل ہوگیا ہے۔ اب یہ مشرقِ وسطیٰ میں سینٹرل کمانڈ یا سینٹکام کہلانے والی امریکی کمان کے تحت امریکی تنصیبات کی حفاظت کرے گا۔ ابراہم لنکن اب امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کا حصہ بن جائے گا۔

اسی پس منظر میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے امریکی فضائیہ کے طیاروں کی کھیپ قطر تعینات کردی ہے جس میں B-52 بمبار طیارے بھی شامل ہیں۔

امریکی افواج کی یہ تبدیلیاں امریکی قومی سلامتی کی کونسل کے اس بیان کے بعد کی جارہی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ ایران کے اشتعال انگیز رویے اور نئی انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق امریکہ اپنی افواج کی بحیرہ روم سے خلیج کی جانب از سرِ نو تعیناتیاں کر رہا ہے۔

بی بی سی کے دفاعی اور سفارتی نامہ نگار جوناتھن مارکس کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایک طیارہ بردار بحری بیڑے اور جنگی گروپ کو خلیج میں بھیجنا غیر معمولی نہیں لیکن یہ اقدام کشیدگی کو ہوا دے سکتا ہے۔

یورپی طاقتوں نے ایران کے اُس الٹی میٹم کو مسترد کردیا ہے جس میں اس نے یورپ سے کہا تھا کہ وہ ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی عائد سرمایہ کاری اور تجارت کو بحال کروانے کی کوششیں کرے، دیگر صورت میں ایران اس معاہدے کو درجہ بدرجہ معطل کرتا چلا جائے گا۔

دور روز قبل ایران کے صدر حسن روحانی نے جے سے پی او اے کی دو شقوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا اور الٹی میٹم دیا کہ اگر ساٹھ دنوں میں یورپی طاقتوں نے اس معاہدے کے مطابق ایران پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کے عملی اقدامات نہ کیے تو ایران مزید شقیں معطل کردے گا۔

ایران کے اس اعلان کے بعد یورپین یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ، اور فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ‘جوہری اسلحے کے پھیلاؤ کو روکنے والوں کے لیے جے سے پی او اے ایک کلیدی کامیابی ہے جو سب کی سیکیورٹی کے مفاد میں ہے۔’

یورپی یونین کے ان رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ‘ہم ایران سے پُر زور انداز میں کہتے ہیں کہ جے سی پی او اے کے تحت جو کچھ بھی طے پایا ہے اس پر اُسی طرح عملدرآمد جاری رکھے جسں طرح وہ اب تک کرتا رہا ہے اور کشیدگی بڑھانے والے اقدامات لینے سے گریز کرے۔’

ایران اور امریکہ کے درمیان اُس وقت سے ایک مرتبہ پھر کشیدگی پیدا ہوگئی ہے جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کو رکوانے کے لیے بین الاقوامی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علحیدہ ہونے کا اعلان کیا تھا

یہ معاہدہ جے سی پی او اے (یا منصوبہ برائے مشترکہ جامع عمل) کہلاتا ہے۔

امریکی صدر نے پچھلے برس اس معاہدے سے علحیدہ ہوتے وقت کہا تھا کہ یہ معاہدہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا کیونکہ بقول اُن کے ایران بدستور خطے میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ تاہم اس معاہدے پر دستخط کرنے والی دیگر طاقتیں اس معاہدے کو بچانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس معاہدے پر سنہ 2015 میں اقوامِ متحدہ سمیت امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے دستخط کیے تھے۔ معاہدے میں طے پایا تھا کہ ایران اپنے جوہری منصوبے کو کم تر درجے تک لے جائے گا اور صرف 3 فیصد یورینیم افزودہ کرسکے گا۔

اس کے عوض ایران پر عائد اقتصادی پاپندیاں ہٹا لی جائیں گی۔ لیکن گزشتہ برس باوجود اس کے کہ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے ایران کو اس معاہدے کی مکمل پابندی کی سند دی تھی، صدر ٹرمپ نے اس سے یکطرفہ طور پر علحیدہ ہونے کا اعلان کردیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے اب ایران پر مکمل اقتصادی، مالیاتی اور تجارتی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ تاہم یورپ اور دیگر ممالک امریکہ کی ان پابندیوں کی مخالفت کر رہے ہیں تاکہ اس معاہدے کو کسی طور قائم رکھا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں