متحدہ عرب امارات کے ساحل پر سعودی عرب کے بحری جہازوں پر حملے

دبئی (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں ’سبوتاژ‘ کیے جانے والے آئل ٹینکرز میں سے دو کا تعلق سعودی عرب سے ہے اور ان دونوں بحری جہازوں کو نقصان بھی پہنچا ہے۔

متحدہ عرب امارت نے اتوار کو کہا تھا کہ بحیرۂ عرب میں خلیج عمان کے علاقے میں چار جہازروں کو مبینہ طور پر ’سبوتاژ‘ کرنے کی کوثشش کی گئی ہے تاہم حکام نے نہ ہی اس بارے میں مزید تفصیلات دی تھیں اور نہ ہی کسی پر اس حملے کا شبہ ظاہر کیا تھا۔

ادھر ایران کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ یہ واقعات ’پریشان کن‘ ہیں اور ان کی جامع تحقیقات ہونی چاہییں۔

تاہم سعودی پریس ایجنسی کے مطابق پیر کی صبح سعودی عرب کے وزیر توانائی خالد الفلیح نے کہا ہے کہ فجیرہ کے ساحل سے دور کھلے سمندر میں دو سعودی ٹینکرز کو ’سبوتاژ حملے‘ کا نشانہ بنایا گیا۔

سعودی وزیر نے ان تیل بردار جہازوں کی شناخت تو ظاہر نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں ان جہازوں کو ‘خاصا نقصان‘ پہنچا ہے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ حملے کا نشانہ بننے والے تیل بردار بحری جہازوں میں سے ایک سعودی عرب آ رہا تھا جہاں اس پر امریکہ بھیجا جانے والا سعودی خام تیل لادا جانا تھا۔

خالد الفلیح نے کہا کہ ’خوش قسمتی سے حملے میں کوئی جانی نقصان یا تیل کا رساؤ نہیں ہوا تاہم اس سے دونوں بحری جہازوں کے ڈھانچے کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔‘

خیال رہے کہ جس علاقے میں سعودی آئل ٹینکرز کو نشانہ بنایا گیا وہ تیل اور قدرتی گیس کی ترسیل کا اہم بحری راستہ ہے۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے مطابق فجیرہ بندرگاہ کے قریب چار تیل بردار بحری جہازوں کو تخریبی کارروائی کے ذریعے نقصان پہنچایا گیا ہے، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

اماراتی حکام کے مطابق تخریب کاری آبنائے ہرمز سے کچھ ہی فاصلے پر کی گئی۔ فجیرہ بندرگاہ کو خطے کا تیل بردار جہازوں کی آمدورفت کا بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

اماراتی وزارت خارجہ نے تاحال تخریبی کارروائی کی نوعیت سے متعلق تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

اماراتی حکام کے مطابق تخریبی کارروائی کے ذریعے عملے کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا معمولی بات نہیں ہے۔ تاہم تخریب کاری کے باعث تیل بردار جہازوں میں کوئی رساؤ نہیں ہوا۔

حکام کے مطابق واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئیں ہیں اور جلد حقائق سامنے لائے جائیں گے۔

اس سے قبل اتوار کو متحدہ عرب امارت میں فجیرہ کی حکومت نے بندرگاہ پر دھماکوں کی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔

امریکہ نے ایران کے تیل برآمد کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے اور تمام ممالک سے ایرانی تیل نہ خریدنے کی اپیل کی ہوئی ہے۔

ایران اور امریکہ کے مابین جاری تناؤ کے باعث خطے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ امریکہ کے مطابق ایرانی خطرات سے نمٹنے کے لئے اس نے جنگی جہازوں سے لیس بحری بیڑے مشرق وسطیٰ کی جانب روانہ کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اپنے جنگی بیڑے کی خطے میں تعیناتی کا سبب امریکی فورسز کو ایران کی جانب سے خطرہ بتایا ہے۔

تاہم ایران کا کہنا ہے امریکہ ایران کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔

ایران کی قومی سلامتی کمیٹی کے سربراہ حشمت اللہ نے فجیرہ بندرگاہ پر دھماکوں کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ خلیجی ممالک میں سکیورٹی کے نقائص کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم فجیرہ بندرگاہ حکام نے دھماکوں کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بندرگاہ پر معمول کے مطابق سرگرمیاں جاری ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد ایران پر پابندی کے دوبارہ نفاذ سے ایرانی معیشت بحران کا شکار ہوگئی ہے جس سے دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔

گزشتہ ہفتے ایران نے خبردار کیا تھا کہ اگر عالمی طاقتیں معاہدے کی شرائط پر بات چیت کرنے میں ناکام رہیں تو وہ 60 روز میں بلند ترین سطح پر یورینیئم کی افزائش شروع کردے گا

ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کے سبب اس علاقے میں بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں