خلیج کے پانیوں میں امریکا اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی پورے خطے کیلئے خطرہ

اسلام آباد (طارق معین صدیقی) خلیج کے پانیوں میں امریکا اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی پورے خطے کے لیے خطرہ بن رہی ہے لیکن ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے پس پشت مقاصد سمجھنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ چند روز کے دوران عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے بعد تاثر ملتا ہے کہ امریکا جنگ کا نیا محاذ کھولنے کے درپے ہے اور اسی تناظر میں اس نے ایران پر خلیج فارس میں بحری تجارتی راہداری کو نشانہ بنانے کے خطرے کا اظہار کیا جس کے بعد امریکی حکام نے ایرانی جنگی کشتیوں پر میزائلوں کی تنصیب کو بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران میزائلوں سے خلیج فارس میں امریکی بحریہ اور تجارتی جہازوں سمیت خطے میں امریکی تنصیبات پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

امریکی سیکیورٹی اور جاسوس ادارے ایک ایرانی عالم دین کے اس بیان کو کہ ‘امریکی بیڑے کو ایک میزائل سے تباہ کیا جاسکتا ہے’ خطرے کا الارم قرار دے رہے ہیں۔

دوسری جانب یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ امریکا اپنے حلیف ممالک پر بھی ایران سے تعلقات ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، خصوصاً اس کے تیل اور گیس سے منسلک معاشی مفادات کو ضرب لگانے کی کوشش جاری ہے۔

امریکا سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں اثر و رسوخ رکھتا ہے اور اس نے خلیجی ممالک سے پانیوں میں تعیناتی کی اجازت بھی لے لی اور امریکی بحیرہ بیڑہ ابراہم لنکن اور بی 52 بمبار طیارے تعینات کیے جارہے ہیں۔

مغربی ممالک اس معاملے میں اب تک کھل کر حمایت کا اعلان نہیں کررہے جبکہ اسپین نے امریکی بحری بیڑے سے اپنا جہاز واپس بلاتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ مشن میں تبدیلی کے باعث اسپین اس کا حصہ نہیں بن سکتا۔

موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی خطے کے لیے انتہائی تشویشناک ہے، ایران پر مزید پابندیوں اور دباؤ کی صورت میں ایرانی حکام کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بلاک کیا جاسکتا ہے جہاں سے دنیا بھر میں استعمال ہونے والے تیل کے پانچویں حصے کی ترسیل ہوتی ہے۔

امریکا اور ایران کے درمیان کسی تصادم کی صورت میں یہ آگ خطے سمیت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکا کی جانب سے گزشتہ کئی ماہ سے ایران پر بڑھایا جانے والا دباؤ صرف ایران کو متنبہ کرنے کے لیے ہے یا خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنا بھی اس کا ایک مقصد ہے؟۔

ہم اگر دنیا کے نقشے کو مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس سے باہر آکر دیکھیں تو بحیرہ ہند انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو دنیا کی بڑی تجارتی سرگرمیوں کی اہم ترین بحری راہداری ہے۔

امریکا خلیج فارس، خلیج عمان اور بحیرہ عرب میں اپنے پکٹ بنانے کا خواہاں ہے۔
اب تک بحیرہ ہند میں امریکا، چین اور بھارت کے درمیان اقتصادی اور معاشی برتری کی دوڑ جاری ہے جہاں ایشیائی ممالک کے ساتھ خلیجی ممالک پر گرفت حاصل کرنے کی کوشش بھی کارفرماں ہے۔

چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ امریکا اور بھارت کو پریشان کیے ہوئے ہے، پاک چین معاشی کوریڈور جو اہم ترین حصہ ہے اور چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل بھی جس پر بھارت اور امریکا کے تحفظات شدید ہیں، ایسے میں ایران کو جواز بنا کر امریکا اپنے بحری جنگی بیڑے کو نہ صرف خلیج فارس، بحیرہ عرب اور خلیج عمان میں تعینات کر لے گا بلکہ بحیرہ ہند پر مضبوط دسترس حاصل کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔

یہاں بھی یہی سوال ہے کہ کیا یہ تیل کی خلیجی ممالک سے ترسیل اور عالمی تجارت پر بھی اثر انداز ہونےکی کوشش کا حصہ ہے تاکہ چین کے عالمی معیشت میں بڑھتے قدم روکے جاسکیں؟۔

بحری دفاعی امور کے ماہر کموڈور سید عبیداللہ کہتے ہیں ‘امریکا ایران تصادم کی صورت میں عالمی معیشت مفلوج ہو کر رہ جائے گی، خلیج فارس سے دنیا کو تیل کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہوگی جبکہ بحیرہ عرب اور بحیرہ ہند میں آزادانہ تجارتی آمدورفت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے’۔

انہوں نے کہا کہ ایران زمینی راستوں سے وسط ایشیا کے ممالک کو گیس اور دیگر اشیاء کی برآمدات سے اپنی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کرے گا۔

پاکستان اس صورتحال میں کیا کرے؟

پاکستان کے ایران سے تعلقات کی نوعیت کچھ علیحدہ ہے جبکہ اس کے سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک سے بھی بہتر تعلقات ہیں تاہم اس صورت حال میں پاکستان کے لیے اس تنازع سے فاصلہ رکھنا بڑا سفارتی چیلنج ہوگا۔

لگتا یوں ہے کہ عالمی سطح پر طاقت کو برقرار رکھنے، معاشی اجارہ داری قائم رکھنے اور دوسری طرف نئے بننے والے اتحادوں کی جانب سے گیم چینج کرنے کی جدوجہد جاری ہے لیکن اقوام عالم اس کوشش میں دنیا کے امن کو تباہ کرنے کے کسی ا قدام کی حمایت کرتی نظر نہیں آتیں، یہی وجہ ہے کہ یورپ، ایشیا، افریقہ سمیت دیگر خطوں کے ممالک ان تنازعات کو مذاکرات سے حل کرنے پر زور دے رہے ہیں ۔

ماضی میں عراق پر امریکی حملے کے تناظر میں دیکھا جائے تو حملے کے بعد خطرناک کیمیائی ہتھیار رکھنے کا الزام غلط ثابت ہوا اور دنیا میں یہ بات عام ہوئی کہ امریکا کی فوجی کارروائیاں دراصل معاشی مفادات سمیٹنے کے لیے طاقت کا اندھا دھند استعمال ہے۔


نوٹ: تحریر میں خیالات تجزیہ نگار کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں