عراق میں امریکی سفارتخانے پر حملہ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو نئی دھمکی

اسلام آباد (تجزیہ؛ شہرام حیدر) بغداد میں امریکہ سفارتخانہ پہ حملے کے بعد ایران امریکہ کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں اعلی سطحی اجلاس کچھ دیر پہلے ختم ہوا ہے جس کے بعد صدر ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ “وہ اگر واقعی جنگ چاہتا ہے تو یاد رکھے یہ اسکا باقاعدہ اختتام ہوگی”۔

یہ ٹوئٹ ایک ایسے وقت پہ کی گئی ہے جب بغداد میں امریکی سفارتخانہ پہ حملے کی خبر سب سے پہلے ایرانی میڈیا نے بریک کی۔ یہ ایک خطرناک اشارہ ہے۔ اگر ایرانی پراکسیز واقعی اس حملہ میں ملوث تھیں تو اس حملے کو ایسے بچگانہ انداز میں نشر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ چال الٹی بھی پڑ سکتی ہے۔ ابھی تک ٹرمپ جنگ سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کر رہا ہے چاہے اسکی وجہ کوئی بھی ہو لیکن اسکا رویہ کسی حد تک ذمہ دارانہ ہے۔ ورنہ ایک طرف اسے عرب ممالک مجبور کر رہے ہیں کہ وہ جنگ کا الاؤ روشن کرے دوسری طرف ایرانی پراکسیز کا مشکوک رویہ ہے جو ٹرمپ کو مجبور کر دے گا کہ وہ پوری فوجی قوت کے ساتھ ایران سے ٹکرا جاۓ جسکا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔

یہ یاد رکھئے کہ امریکہ کو اپنی اتنی پرواہ نہیں جتنا اسرائیل اور عرب ممالک کی ہے جو اسے پال رہے ہیں۔ امریکہ تک تو ایران حملہ ہی نہیں کر سکتا ایرانی حملہ اسرائیل اور عرب ممالک میں موجود امریکی مفادات پہ ہوگا اور یہی واحد وجہ ہے جو ٹرمپ کو طبل جنگ بجانے سے روکے ہوۓ ہے۔ اگر امریکہ نے اسرائیل نامی کمبل سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا اور عربوں کو انکے حال پہ چھوڑ دیا تو ایران اور اسرائیل سمیت پورا خطہ تباہی کا شکار ہوگا۔ خانہ جنگی پورے مشرق وسطی کو لپیٹ میں لے لیگی لیکن امریکہ پھر بھی اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گا۔

ایک آپشن جسکی طرف ہمارا دھیان نہیں وہ یہی ہے کہ امریکہ ایران کو تباہ کرنے کی خاطر ہر قیمت ادا کرنے پہ راضی ہو گیا تو کیا ہوگا؟ میرے نزدیک اسکا نتیجہ ایران اسرائیل سمیت پورے عرب خطہ کی تباہی ہے۔ ایران میں اگرچہ اس وقت متبادل قیادت تیار نہیں لیکن امریکہ نے کئی ممالک کو جنگ سے تباہ کر کے بے یارو مددگار بھی چھوڑا ہے اور مصنوعی قیادت بھی کھڑی کی ہے۔ اس لئے اگر ٹرمپ انتظامیہ ہر قیمت پہ ایرانی نظام کو لپیٹنے پہ کمر بستہ ہو گئی تو ایران اور اسکی پراکسیز دونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا جب کہ امریکہ کو بذات خود کوئی جنگی نقصان نہیں ہوگا۔ نقصان ہوا تو اسکے اتحادیوں کا ہی ہوگا جن میں عرب ممالک اور اسرائیل پہلے نمبر پر ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کیا امریکہ ایرانی تباہی کے عوض، عربوں اور اسرائیل کو قربان کرنے پہ تیار ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ایسا فیصلہ ہو گیا جسکا بظاہر امکان بہت کم ہے تو ایران کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یا تو ایرانی بھی یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے یا پھر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کریں۔ دشمن کو کمزور سمجھ کے اشتعال دلانا ہرگز ذمہ دارانہ رویہ نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں