سانحہ کرائسٹ چرچ: نیوزی لینڈ میں ہتھیاروں سے متعلق قوانین مزید سخت

کرائسٹ چرچ (ویب ڈیسک) نیوزی لینڈ نے کرائسٹ چرچ سانحے کے بعد ہتھیاروں سے متعلق قوانین کی اصلاحات کے دوسرے مرحلے میں نیشنل فائر آرمز رجسٹر کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ ہتھیاروں کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ہتھیاروں کے لائسنس رکھنے سے متعلق قوانین بھی سخت کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 15 مارچ کا واقعہ جب ایک مسلح شخص نے کرائسٹ چرچ کی مساجد میں جمعہ کی نماز کے لیے جمع ہونے والے افراد پر فائرنگ کے واقعے نے نیوزی لینڈ میں ہتھیاروں کی ملکیت سے متعلق رویہ تبدیل کردیا ہے۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے کہا کہ خطرناک ترین ہتھیاروں کو فروخت کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت نے سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد ابتدائی طور پر نیم خود کار ہتھیاروں پر پابندی عائد کی تھی۔وزیر پولیس اسٹیوارٹ ناش نے کہا کہ یہ تبدیلیاں ہتھیاروں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے ضروری تھیں۔

انہوں نے کہا کہ  موجودہ قانون کے تحت ہم صحیح تعداد نہیں جانتے کہ کتنی گنز استعمال ہیں، کس کی ملکیت ہیں،کون فروخت کررہا ہے، کون انہیں خرید رہا ہے اور کتنی حفاظت سے انہیں رکھا جاتا ہے۔یہ رجسٹر 5 سال میں مکمل ہوگا جس کے تحت نیوزی لینڈ میں موجود تقریبا 12 لاکھ ہتھیاروں کی تفصیلات درج ہوں گی۔ہتھیاروں کے قوانین سے متعلق اصلاحات کے دوسرے مرحلے میں غیر ملکیوں کی ہتھیاروں کی خریداری پر پابندی بھی شامل ہے کیونکہ کرائسٹ چرچ حملے کے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے جنوبی جزیرے پر رہتے ہوئے ہتھیار خریدے تھے۔اصلاحات میں لائسنس رکھنے والے شخص کی جانب سے تشدد، منشیات اور ہتھیاروں سے متعلق جرائم کرنے پر سزا بھی شامل ہے۔

علاوہ ازیں نیوزی لینڈ میں پولیس کی جانب سے ہتھیار واپس کرنے کی مہم  بائے بیک کا آغاز کیا گیا ہے جس میں لوگوں کو 6 ماہ کی مدت سے قبل ہتھیار واپس کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔اسٹیوارٹ ناش نے کہا کہ بائے بیک کے پہلے ہفتے میں بہت اچھا ردعمل ملا اور 11 ہزار سے زائد ایسے ہتھیار واپس کیے گئے جن پر پابندی عائد ہے۔انہوں نے کہا کہ  ہتھیاروں کے مالکان صحیح چیز کرنا چاہتے ہیں، اکثر افراد ہتھیار، ان کے حصے اور آلات واپس کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

15 مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعہ کے روز النور مسجد اور لِین ووڈ میں دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے اس وقت داخل ہوکر فائرنگ کی تھی جب بڑی تعداد میں نمازی، نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں موجود تھے۔اس افسوسناک واقعے میں 50 افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے حملوں کو دہشت گردی قرار دیا تھا۔مسجد میں فائرنگ کرنے والے دہشت گرد نے حملے کی لائیو ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر نشر کی، جسے بعد میں نیوزی لینڈ حکام کی درخواست پر دل دہلا دینے والی قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا سے ہٹادیا گیا تھا۔

بعد ازاں نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں ملزم پر قتل کے الزامات عائد کردیے گئے تھے۔اس کے ساتھ ہی نیوزی لینڈ کی کابینہ نے اسلحہ قوانین میں اصلاحات کرتے ہوئے سخت قوانین کی منظوری بھی دے دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں