ایران امریکا کے درمیان جنگ دنیا اور پاکستان کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے: وزیراعظم نے انتباہ کردیا

واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب کیا جس میں انہوں کہا کہ ایران کا مسئلہ عراق سے بھی بڑا مسئلہ بن سکتا ہے، لوگ امریکا اور ایران کے درمیان جنگ کی سنگینی کو نہیں سمجھتے، ایران اور امریکا کے درمیان جنگ دنیا اور پاکستان کیلئے تباہ کن ہو سکتی ہے۔

کشمیر کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی نہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کشمیری کیا حل چاہتے ہیں، مشرف اور واجپائی کے دور میں کشمیر پر ریفرنڈم جیسی صورتحال سامنے آرہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے ہمسائیوں سے اچھے تعلقات چاہتا ہے، بھارت سے تعلقات درست سمت میں چلنا شروع ہوتے ہیں تو بدقسمتی سے مسئلہ کشمیر کی وجہ سے کوئی نہ کوئی واقعہ ہمیں پیچھے دھکیل دیتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ گرفتار بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی کے میرے فیصلے کی پاک فوج نے بھی حمایت کی، ماضی میں میرے خیالات پر مجھے طالبان خان اور بغیر داڑھی کا دہشتگرد کہا گیا۔

وزیراعظم عمران خان نے امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب کیا جس میں انہوں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد صورتحال کلیئر ہوگئی اور اب وہ افغان طالبان سے ملاقات کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے امریکی تھنک ٹینک سے خطاب میں واضح کیا کہ اب پاکستان امریکا کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات چاہتا ہے، پاکستان امریکا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستی کا تعلق چاہتا ہے، امریکا کے ساتھ ایسے تعلقات نہیں چاہتے جیسے ماضی میں صرف امداد کیلئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اب امریکا سے تعلقات باہمی دلچسپی کی بنیاد پر ہیں اور یہ باہمی دلچسپی افغانستان میں امن عمل ہے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان تمام پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات چاہتا ہے، پاکستان کواستحکام کیلئے امن کی ضرورت ہے، بھارت سےتعلقات درست سمت میں چل رہے ہوں تو کوئی نہ کوئی و اقعہ ہوجاتا ہے، پاکستان اور بھارت کو غربت کا سامنا ہے، تجارت بڑھا کر غربت میں کمی کی جا سکتی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کی یہی سوچ ہے کہ افغانستان میں امن خطے کی ضرورت ہے، صدر ٹرمپ کی جانب سے دورہ امریکا کی دعوت ملی تو تھوڑی پریشانی ہوئی، مشوروں کی بھرمار ہوگئی، تاہم صدر ٹرمپ کی فراخ دلانہ میزبانی سے مجھے اور وفد کو خوشگوار حیرانی اور خوشی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن پاکستان کو اس جنگ میں ملوث ہونا پڑا، دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں ہزاروں جانیں قربان ہوئیں۔

ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں سیاسی جماعتوں سے نہیں، مافیا سے نبردآزما ہوں، ان کا رویہ سیاسی جماعت کی طرح نہیں، اس لیے میں انہیں مافیا کہتا ہوں، اپوزیشن ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں لگی ہے، کرمنل مافیا کے خلاف ملک بھر میں آپریشن کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کرمنل مافیا سے رقم وصول کر ر ہے ہیں، پاکستان میں انتہائی کم لوگ ٹیکس دیتے ہیں، ٹیکس کے مخالف آج کل ہڑتال کر رہے ہیں، ہم انہیں ٹیکس دینے پر قائل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں اسے احتساب اور مخالفین اسے انتقامی کارروائی کہتے ہیں، پاکستان کے قرضے 6 ہزار سے 30 ہزار ارب روپے ہونے پر تحقیقاتی کمیشن قائم کیا ہے، کرپٹ مافیا سے حاصل رقم غربت میں کمی کیلئے استعمال کی جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان پر روسی حملے کے بعد امریکا اور پاکستان کا ساتھ رہا، افغان جنگ کے بعد امریکا نے ساتھ چھوڑ دیا، نائن الیون کا واقعہ ہوا تو میں نے جنگ میں شمولیت کی مخالفت کی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کی مخالفت کی تھی، تورا بورا واقعے کے بعد عسکریت پسند قبائلی علاقوں میں روپوش ہوگئے، قبائلی علاقوں کے عوام کو جنگ کے نتیجے میں شدید مشکلات اٹھانی پڑیں، ہمیں اس جنگ میں غیرمتعلق رہنا چاہیے تھا۔

عمران خان نے مزید کہا کہ امریکا کا ساتھ دینے پر عسکریت پسند ہماری فورسز کیخلاف ہوگئے، اب پاکستان میں پہلی بار عسکریت پسند گروپوں کو غیرمسلح کیا جارہا ہے، پاکستان کی فوج حکومت کے پروگرام کے ساتھ ہے، جمہوری حکومت اورفوج کی پالیسیوں میں کوئی اختلاف نہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغان طالبان کے وفد نے کچھ مہینے پہلے مجھ سے ملاقات کی خواہش کی تھی، افغان حکومت نہیں چاہتی تھی کہ میں طالبان کے وفد سے ملوں، صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد صورتحال کلیئر ہونے پر اب افغان طالبان سے ملوں گا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت اقلیتوں کے مکمل تحفظ کیلیے کام کر رہی ہے، آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ سے رہائی پر ایک گروپ نےمخالفت کی، مظاہرہ کرنے والوں کو جیل میں ڈالا گیا اور آسیہ بی بی کو ملک سے باہر بھجوادیا گیا۔

میڈیا پر سنسر شپ سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان کا میڈیا برطانیہ کے مقابلے میں زیادہ آزادہے، نواز شریف کے دور میں صحافیوں پر تشدد کیا گیا، پاکستان جیسا میڈیا دنیا میں کہیں نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا سینسر شپ نہیں ہے، پاکستان میں میڈیا آزاد ہے تاہم کبھی قابو سے باہر ہوجاتاہے۔ آزاد ٹی وی چینلز آئے تو مجھے مہم چلانے میں بہت مدد ملی، ہم میڈیا پر نظر رکھیں گے لیکن سنسر شپ نہیں کریں گے، میں آزاد میڈیا کا سب سے بڑا استفادہ کنندہ ہوں، میڈیا کو واچ ڈاگ ہونا چاہیے اپوزیشن کا کردار ادا کریں لیکن بلیک میلنگ نہیں۔

عمران خان نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں دونوں پارٹیوں کو شکست دینے میں مدد ملی، نواز شریف نے لندن میں مہنگے ترین فلیٹ خریدے، نواز شریف سے آمدنی کے ذرائع پوچھے تو وہ نہ بتا سکے، پاناما پیپرز آئے تو ایک طاقتور میڈیا نوازشریف کے دفاع میں سامنے آگیا۔

انہوں نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) لیڈرشپ نے فوج پر حملے کیے جس پر پابندی لگانی پڑی، مسلح گروپوں کو ملک میں پنپنے نہ دینا پاکستان کے مفادمیں ہے، ہر سیاسی جماعت نے نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کیے ہیں، سیکیورٹی فورسز پشت پر نہ ہوں تو ہم انہیں غیر مسلح نہیں کرسکتے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فوج کی مدد سے ملک بھر میں مسلح گروپوں کو غیر مسلح کیا جارہا ہے۔

آخر میں وزیر اعظم عمران خان نے امریکی انٹیلی جینشیا (دانشوران) کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان امریکا سے باہمی مفاد اور عزت پر مبنی تعلقات چاہتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ برا لگتا ہے کہ کسی سے امداد مانگیں، بیرونی مالی امداد تو پاکستان کیلئے لعنت ہے۔ عمران خان نے کہا کہ صرف امریکا نہیں، کسی بھی ملک سے امداد مانگنے کو توہین سمجھتے ہیں۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان امریکا کے تین روزہ سرکاری دورے پر ہیں جو 23 جولائی کو اختتام پذیر ہوگا، دورے کے دوران انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر امریکی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔

گزشتہ روز امریکی صدر نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی جس پر وزیراعظم نے ان کی پیشکش کو قبول کیا تھا۔

تاہم بھارت کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کا مستقل مؤقف رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات دونوں ملک باہمی طور پر طے کریں گے، کسی بھی قسم کی بات چیت پاکستان کی جانب سے سرحد پار دہشتگردی کے خاتمے سے مشروط ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں