چین کا مسلمانوں کو اپنے تجارتی سینٹرز سے اسلامی علامات مٹانے کا حکم

بیجنگ (ڈیلی اردو) چین کے شہر بیجنگ میں کم سے کم ایک ہزار حلال گوشت کے ریسٹورنٹ اور دکانیں ہیں، کچھ دکانداروں نے عربی میں حلال کے الفاظ کے بجائے چینی زبان میں اس کے متبادل الفاظ استعمال کر لیے ہیں جبکہ کچھ نے اسلامی الفاظ اور علامات کو ٹیپ سے چھپا رکھا ہے۔

بیجنگ میں حکام نے تمام دکانوں سے عربی نشانات اور اسلامی علامات ہٹانے کا حکم دے دیا۔ چینی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں تازہ ترین کارروائی ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران چینی حکام کی جانب سے مختلف ریسٹورانٹس، کیفے اور کھانے کے ٹھیلوں کا دورہ کیا گیا اور وہاں سے عربی الفاظ میں لکھے ’حلال‘ کے الفاظ اور اسلامی علامات جیسے پہلی کے چاند یعنی ہلال کو ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔

اسلامی علامات اور شناخت کے خلاف یہ مہم 2016 میں اس وقت شروع کی گئی جب چین کی جانب سے دو کروڑ مسلمانوں کو چینی ثقافت کے ساتھ جوڑنے کے لیے اقدامات عمل میں لائے گئے۔ یہ کریک ڈاؤن سنکیانگ کے صوبے میں زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہے جہاں تقریباً 20 لاکھ لوگوں کو ایسے کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے جہیں چین تربیتی کیم کہتا ہے۔

بیجنگ کی ایک نوڈل شاپ کے مینیجر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ جس وقت انہیں ’حلال‘ کے الفاظ کو چھپانے پر مجبور کیا گیا تو سرکاری افسران وہاں موجود تھے۔ مینیجر کا کہنا ہے: ’ان کا کہنا تھا کہ یہ غیر ملکی ثقافت ہے، آپ کو چینی ثقافت کو استعمال کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے تادیبی کارروائی کے خطرے سے اپنا نام ظاہر کرنے سے گریز کیا۔حلال مذبح خانے کے ایک ملازم نے کہا: ’یہ نیا حکم اسلامی ثقافت کو مٹا کر رکھ دے گا۔ یہ ہمیشہ قومی اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ ہمیشہ چین کی بین الاقوامیت کی بات کرتے ہیں۔ کیا یہ قومی اتحاد ہے؟‘

انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی جانب سے سنکیانگ میں بنائے جانے والے بڑے کیمپوں کو ’جنگی نظر بندی‘ کیمپوں سے تشبیہہ دی جا رہی ہے۔

ان کیمپوں کے سابقہ نظر بند افراد نے بتایا ہے کہ ان کیمپوں میں اویغور مسلمانوں کو اسلام سے تائب ہونے، کمیونسٹ پارٹی سے وفاداری کا حلف اٹھانے یہاں تک کے سور کو گوشت کھانے اور شراب پینے تک پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اسلام میں حرام ہیں۔

حکومت کی جانب سے اس کو سنکیانگ میں دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی سے نمٹنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں