عراقی فوج نے صوبہ دیالی اور نینوی میں داعش کے خلاف وسیع آپریشن شروع کر دیا

بغداد (ڈیلی اردو) عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے پیر کے روز دیالی اور نینوی کے علاقوں میں داعش تنظیم کے خلاف ایک وسیع فوجی آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عراقی فوج نے دو ہفتے قبل نینوی صوبے کے ضلع تلعفر میں داعش تنظیم کی ٹولیوں کے تعاقب اور مال ویران کے پہاڑوں کو کلیئر کرانے کے لیے ایک آپریشن شروع کیا تھا۔

عراقی وزیراعظم نے اْس وقت کہا تھا کہ یہ آپریشن کئی روز تک جاری رہے گا۔ آپریشن کو “کامیابی کا ارادہ” نام دیا گیا ہے اور اس کا قمصد عراق کے مغرب میں واقع صوبوں کو محفوظ بنانا ہے۔

عراقی وزارت دفاع نے مذکورہ آپریشن کے تیسرے مرحلے کے آغاز کا اعلان کیا، آپریشن میں دہشت گرد تنظیم داعش کے عناصر کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد عراق کے شمال اور مغرب میں واقع صوبوں کے بیچ واقع علاقوں کو کلیئر کرانا ہے۔ یہ علاقہ شام کے ساتھ سرحد تک پہنچا ہوا۔

آپریشن کے پہلے مرحلے میں مطلوبہ مقاصد کو پورا کر لیا گیا۔ اس دوران داعش تنظیم کی متعدد خفیہ پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا۔ اس کے کچھ روز بعد دوسرا محلہ شروع کیا گیا جس میں عراقی وزیر دفاع نجاح الشمری نے بھی شرکت کی۔ اس دوران دہشت گرد تنظیم داعش کے متعدد ٹھکانے تباہ کر دئیے گئے۔

بعد ازاں عراقی فوج کے مشترکہ آپریشنز کی قیادت کے زیر نگرانی تیسرے مرحلے کا آغاز ہوا۔ تقریبا 5 روز جاری رہنے والے مرحلے میں سیکورٹی فورسز کو دھماکا خیز مواد تیار کرنے والی ایک فیکٹری بھی ملی۔ فیکٹری سے متعدد دھماکا خیز آلات برآمد کر لیے گئے۔

آپریشن میں عراقی فوج، پولیس اور ایوی ایشن کے علاوہ شیعہ ملیشیا الحشد الشعبی نے بھی شرکت کی۔

اس دوران داعش پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی اتحاد کی فضائی سپورٹ بھی حاصل رہی۔ کچھ عرصہ قبل شام کے ساتھ سرحد کے نزدیک دو عراق کے دو صوبوں نینوی اور الانبار میں داعش تنظیم کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا۔

اس سے قبل یہ خبریں موصول ہوئی تھیں کہ شام میں داعش تنظیم کے سیکڑوں عناصر عراقی سرزمین کی جانب فرار ہوئے ہیں۔ اسی طرح دیالی، کرکوک اور صلاح الدین صوبوں میں بھی داعش تنظیم کی کاررائیاں بڑھ گئیں اور سلسلہ وار کارروائیوں میں سیکورٹی اہل کاروں اور شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

یاد رہے کہ داعش تنظیم کے غیر فعال گروپ ابھی تک عراق کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ تنظیم اب بتدریج اپنے پرانے طریقہ کار کی جانب لوٹ آئی ہے اور 2014 سے پہلے کی طرح گینگ وار کے طریقے پر حملے کر رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں