سعودی عرب اتحاد کے اپنے ہی سابقہ یمنی اتحادیوں پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے

ریاض + صنعا (ڈیلی اردو) خانہ جنگی کے شکار ملک یمن میں سعودی عسکری اتحاد نے اپنے ہی سابقہ اتحادیوں پر بڑے فضائی حملے کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں تازہ لڑائی میں مزید کم از کم چالیس افراد جاں بحق اور 250 کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔

جرمنی کا بین الاقوامی نشریاتی ادارہ ڈوئچے ویلے کے مطابق یمن کے شہر عدن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں کی طرف سے عدن میں صدارتی محل پر کیا جانے والا قبضہ سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحادکی طرف سے ان علیحدگی پسندوں کے خلاف شدید نوعیت کے فضائی حملوں کی وجہ بنا۔ اس نئی پیش رفت کو سعودی حکومت کے لیے عسکری حوالے سے ایک بڑا دھچکا بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ عرب دنیا کے اس غریب ترین اور کئی سالہ خانہ جنگی سے تباہ حال ملک میں اب سعودی عرب کی سربراہی میں قائم عسکری اتحاد اپنی انہی سابقہ اتحادی قوتوں کے خلاف ہو گیا ہے، جو ماضی میں صدر منصور ہادی کی حلیف تھیں۔ ان حملوں سے قبل ان عسکری طاقتوں نے عدن کے بندرگاہی شہر کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔

خانہ جنگی میں ایک خطرناک موڑ

یمنی خانہ جنگی میں اس بات کو ایک نیا اور انتہائی خطرناک موڑ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنوبی یمن میں مسلح جنگجوؤں کی وہ عبوری کونسل جو ایس ٹی سی (سدرن ٹرانزیشنل کونسل) کہلاتی ہے، پہلے صدر منصور ہادی کی مخالف حوثی شیعہ ملیشا کے خلاف لڑ رہی تھی لیکن اب اس نے نہ صرف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں بلکہ وہ جنوبی یمن میں اپنی ایک علیحدہ ریاست کے قیام کی خواہش مند بھی ہے۔

ریاض حکومت کی طرف سے ان یمنی علیحدگی پسندوں کے خلاف نئے فضائی حملوں کے بعد کہا گیا کہ ان کارروائیوں میں ان علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جو صدر منصوری ہادی کی حکومت کے لیے ‘براہ راست خطرہ‘ تھے۔ اس بارے میں سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی وژن نے عسکری اتحاد کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا، ”یہ حملے پہلی براہ راست کارروائی تھے، جس کے بعد آئندہ ان علیحدگی پسندوں کے خلاف مزید کارروائیاں بھی کی جائیں گی۔‘‘

ساتھ ہی جنوبی یمن کی عبوری کونسل کے جنگجوؤں کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب بھی ان کے پاس ایک آخری موقع ہے کہ وہ اپنی عسکری پوزیشنوں سے پیچھے ہٹ جائیں۔ دوسری طرف اس نئی صورت حال پر غور اور یمن کے مسلح تنازعے کے خاتمے کی کوششوں کے لیے ریاض حکومت نے ایک ہنگامی سربراہی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔

سعودی قیادت کے لیے دھچکا

جنوبی یمن کے مسلح علیحدگی پسندوں نے گزشتہ روز (دس اگست) کو عدن شہر پر حملہ کر کے تین فوجی چھاؤنیوں اور صدارتی محل کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس دوران انہیں مبینہ طور پر کسی بڑی عسکری مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس لیے کہ تینوں چھاؤنیوں اور صدارتی محل میں موجود مسلح دستوں نے یا تو یہ سب جگہیں بغیر لڑے ہوئے ہی خالی کر دی تھیں یا پھر وہ جزوی طور پر ان علیحدگی پسندوں سے مل گئے تھے۔

سعودی عرب کے لیے، جو یمن کی خانہ جنگی میں 2015ء سے صدر منصور ہادی کا اتحادی اور ایران نواز حوثی باغیوں کا مخالف ہے، یہ صورت حال اس لیے بھی ایک بڑا جھٹکا ہے کہ حوثی باغیوں نے جب صنعاء پر قبضہ کیا تھا تو یمن کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر ہادی فرار ہو کر عدن چلے گئے تھے۔ تب سے انہوں نے عدن کو ہی اپنی انتظامیہ کا عبوری دارالحکومت بنا رکھا ہے۔ یوں سعودی رہنماؤں کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ صنعاء پر حوثیوں کا قبضہ ہو اور عدن پر بھی جنوب کے علیحدگی پسند قابض ہو جائیں۔

عدن پر قبضہ ‘بغاوت‘

اسی دوران صدر منصور ہادی، جو اپنی حکومت کے زیادہ تر وزراء کے ساتھ سعودی دارالحکومت ریاض میں مقیم ہیں، کی حکومت نے عدن پر ایس ٹی سی کے علیحدگی پسندوں کے قبضے کو ‘حکومت کے خلاف بغاوت‘ کا نام دیا ہے۔ دریں اثناء حوثی باغیوں کی قائم کردہ متوازی انتظامیہ میں نائب وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز حسین العزی نے کہا ہے کہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ یمن میں اثر و رسوخ کی حامل تمام قوتیں آپس میں سنجیدہ مذاکرات شروع کریں تاکہ اس ملک کو ایک ‘وفاقی ریاست‘ بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ”یمن کو ایک ایسی وفاقی ریاست ہونا چاہیے، جس میں تمام دھڑوں کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہو۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں