شمالی وزیرستان: طالبان کی قبائلیوں کو حکومت سے عدم تعاون کی ہدایت

پشاور (ویب ڈیسک) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں طالبان نے قبائلی رہنماؤں و عوام کو حکومت اور اداروں سے عدم تعاون اور شدت پسند تنظیم کی مدد کرنے کیلئے دھمکی آمیز پمفلٹ تقسیم کیے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے شدت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر کی جانب سے میران شاہ، میر علی اور دیگر علاقوں میں دھمکی آمیز پمفلٹ تقسیم کیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ حافظ گل بہادر خود کو مجاہدین شورٰی کا خادم اور سربراہ کہتے ہیں۔

تقسیم کیے گئے پمفلٹ میں خاص طور پر قبائلی رہنماؤں کو حکومت اور سرکاری اداروں کے ساتھ ہر قسم کا تعاون ختم کرنے کے لیے دھمکی دی گئی ہے جب کہ ان کی شدت پسند تنظیم کی معاونت کے لیے بھی کہا گیا ہے۔

خیال رہے کہ تقسیم کیا گیا پمفلٹ نو نکات پر مبنی ہے یہ خط کمپیوٹر کے ذریعے اردو زبان میں تحریر کیا گیا ہے۔

اس پمفلٹ میں علاقائی عمائدین سے کہا گیا ہے کہ وہ بچوں کو فوج میں بھرتی ہونے سے روکیں جبکہ بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلائے جائیں اور ملازمت پیشہ خواتین نوکریاں چھوڑ دیں۔

حافظ گل بہادر کی جانب سے تقسیم کیے گئے اس تحریر میں قلفی، کپڑے اور دیگر مختلف اشیا ءبیچنے والوں کو خفیہ ایجنسیوں کا اہلکار قرار دیا گیا جبکہ ان کو ایک ہفتے میں علاقہ چھوڑنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عوام فوج کے نزدیک نہ رہے کیونکہ حملوں کی صورت میں وہ زد میں آئیں گے جبکہ کسی جگہ کوئی مجاہد نظر آیا تو اس کی مکمل پردہ پوشی کی جائے۔

اس پمفلٹ میں آرمی پبلک اسکولز کے فوجی چھاؤنیاں قرار دیتے ہوئے عوام کو بچے اسکول نہ بھیجنے اور اساتذہ کو تبادلہ کرانے کا کہا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ماضی میں بھی شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی علاقے میران شاہ میں اس قسم کے ہاتھ سے لکھے گئے دھمکی آمیز پمفلٹ تقسیم کیے جا چکے ہیں۔

سرکاری طور پر حافظ گل بہادر کے اس دھمکی آمیز ایک صفحے کے پمفلٹ پر کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔

شمالی وزیرستان سے نو منتخب رکن خیبر پختونخوا اسمبلی میر کلام وزیر نے ‘وائس آف امریکہ’ کے رابطہ کرنے پر دھمکی آمیز خط کی تقسیم سے لاعملی کا اظہار کیا۔

رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن ضرب عضب کے بعد توقع تھی کہ علاقے میں امن قائم ہوگا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔

میر کلام وزیر نے مزید کہا کہ شمالی وزیرستان میں تشدد واقعات، دہشت گردی بالخصوص گھات لگا کر قتل کی وارداتیں تواتر سے ہو رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کافی پریشان ہیں۔

واضح رہے کہ حافظ گل بہادر کا شمار ان سر کردہ شدت پسند کمانڈروں میں ہوتا تھا۔ جن کے ساتھ حکومت نے ستمبر 2006 میں ایک امن معاہدہ کیا تھا۔

اس امن معاہدے کے تحت حافظ گل بہادر کے وفادار جنگجوں کو علاقے میں سرگرمیوں کی اس شرط پر اجازت حاصل تھی کہ وہ سکیورٹی فورسز اور سرکاری عمارات پر حملے نہیں کریں گے۔

حکومت اور حافظ گل بہادر کی شدت پسند تنظیم کے مابین 2014 کے اوائل میں اختلافات اُس وقت پیدا ہوئے جب اُن کی تنظیم کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔

شمالی وزیرستان میں 15 جون 2014 کو فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی تو حافظ گل بہادر جنگجوؤں سمیت سرحد پار کرکے افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔

چند ہفتے قبل ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران حکومت اور حافظ گل بہادر کے درمیان قبائلی رہنماؤں کے ذریعے افہام و تفہیم کے لیے بات چیت کی تصدیق کی تھی۔

سرکاری عہدیدار کے بقول یہ سلسلہ بار آور ثابت نہیں ہو سکا۔

حکام کا کہنا ہے کہ حافظ گل بہادر اہم شدت پسند کمانڈروں اور جنگجوؤں کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ملانے والے برف پوش پہاڑی علاقے شوال میں چھپے ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں