افغانستان میں 18 سالہ طویل خانہ جنگی کا خاتمہ قریب

واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں افغان طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اس مرتبہ انشا اللہ ہر چیز طے ہو جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ طریقہ کار کی تفصیلات طے کی جارہی ہیں تاکہ امریکی قیادت والی غیر ملکی افواج کے انخلا کا معاملہ طے کیا جا سکے۔

ایک سوال پر طالبان ترجمان نے کہا کہ جو طریقہ کار طے کیا جارہا ہے اس میں امریکی فوجی انخلا کی تمام تر جزئیات طے ہوں گی اور یہ بھی حتمی طور پر درج ہوگا کہ افواج کے انخلا کا آغاز کس علاقے سے ہوگا اور پورے عمل میں کتنا عرصہ درکار ہوگا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے وی او اے کے استفسار پر بتایا کہ اس سارے عمل کو حتمی شکل دینے کے لیے مزید ایک دن فریقین کو درکار ہوگا۔

وائس آف امریکہ کے مطابق افغان طالبان سے بات چیت میں امریکی وفد کی قیادت کرنے والے افغان نژاد زلمے خلیل زاد گفتگو مکمل کرنے کے بعد کابل کا دورہ کریں گے جس میں افغان قیادت کو تمام تر تفصیلات بتائیں گے۔

وی او اے کے مطابق افغان طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے حتمی سمجھوتے پر عالمی ضمانت دہندگان کی موجودگی میں دستخط ہوں گے۔ عالمی ضمانت دہندگان میں پاکستان، چین، روس اور افغانستان سمیت اقوام متحدہ بھی شامل ہے۔

وائس آف امریکہ کے مطابق افغان طالبان سے امریکہ کے ہونے والے معاہدے کے بعد 2020 کے آخر تک افغانستان س تمام غیر ملکی افواج نکل جائیں گی جن کی تعداد تقریبا 20 ہزار بتائی جاتی ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ افغانستان میں جاری امن مذاکرات پر جب پوری دنیا کی توجہ مبذول تھی تو عین وقت پر بھارتی انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور مشیر برائے قومی سلامتی امور اجیت ڈووال نے مقبوضہ کشمیر کو آئین میں حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرکے سب کی توجہ ایک نئے معاملے کی طرف الجھا دی تھی۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق بھارت افغانستان میں قیام امن کا اندرونی طورپر بڑا مخالف ہے کیونکہ وہاں سے اسے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے اور شرپسندانہ کارروائیاں کرنے کا راستہ ملتا ہے۔

افغانستان میں گزشتہ 18 سال سے جانہ جنگی جاری ہے جس کے دوران لاکھوں افراد اپنی جانوں کو گنواچکے ہیں اور قرب و جوار کے ممالک پر بھی اس کے نہایت منفی اثرات رونما ہوئے ہیں۔

افغان طالبان کی جانب سے اس امید کا اظہار اس وقت کیا گیا جب تین دن قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ان کے امریکہ کے ساتھ جاری امن مذاکرات کے نویں دور کا آغاز ہوا جسے فریقین کی جانب سے فیصلہ کن دور بھی قرار دیا جارہا ہے۔ امن مذاکرات گزشتہ ایک سال سے جاری ہیں اور اس دوران فریقین کے درمیان باضابطہ بات چیت کے آٹھ ادوار ہو چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں