اسرائیلی جیلوں میں 7 ہزار فلسطینی بچے قید ہیں: انسانی حقوق کمیشن

نیویارک + غزہ (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشن کے ترجمان کے مطابق  اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدی بچوں کی تعداد میں اضافہ غیرمعمولی اضافہ المیہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشن کے ترجمان نے اسرا‎ئیلی جیل خانہ جات  سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کی روشنی میں کہا ہے کہ اسوقت صیہونی جیلوں میں  سات ہزار فلسطینی معصوم بچے جن کی عمریں 9 سے 14 برس کے درمیان ہیں قید ہیں  جبکہ  سیکڑوں  کو بغیر جرم کے جیلوں میں قید رکھنے کے بعد بدترین تشدد کر کے چھوڑ دیاگیا ہے ۔

آنلائن نیوز ایجنسی کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غاصب اسرائیلی افواج ہر ماہ سات سو سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار کرتے ہیں اوران کو قید میں رکھا جاتا ہے۔

فلسطینی روزنامہ القدس کے مطابق غاصب صہیونی افواج رات گئے فلسطینیوں کے گھروں پر چھاپہ مارتے ہیں اور گھروں میں موجود معصوم بچوں کو جبراً گرفتار کرکے ان کو اپنے ساتھ زیادہ تر نامعلوم مقام پر لے جاتے ہیں۔ گرفتاری کے وقت بچوں کے چہروں پر کپڑا ڈال دیا جاتا ہے یا ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے جب کہ ان کے ہاتھ پشت کی طرف آہنی زنجیروں سے باندھ کر ان کو اپنی گاڑیوں میں بٹھا کر جیلوں میں لے جایا جاتا ہے۔

ایک فلسطینی بچے طاہر ماعود نے بتایا ہے کہ جب تک ان کو گاڑی میں سوار رکھا جاتا ہے اسرائیلی فوجی ان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور گھونسوں اور لاتوں کی بارش جاری رہتی ہے تا حد یہ کہ گاڑی جیل تک نہ پہنچ جائے اس دوران اسرائیلی فوج اور پولیس کی جانب سے تضحیک آمیز جملوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

فلسطین میں صیہونی زندانوں میں اسیروں کی تفصیلات رکھنے والے ادارے نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد فلسطینی قیدیوں کو تحقیقات کیلئے انویسٹی گیشن سینٹر پر لایا جاتا ہے اور چوبیس گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ دیر تک بچوں کو بغیر خوارک، پانی اور ضروری چیزوں کے رکھا جاتا ہے اور تفتیش کا طریقہ بھی انتہائی سخت رکھا جاتا ہے جس میں بائیس بائیس گھنٹے لگاتار بچوں کو جگائے رکھنا اور مختلف طریقوں سے ڈرا دھمکا کر تفتیش کرنا شامل ہے۔

اسرائیلی قید میں بچوں کو موت کی دھمکی سمیت جنسی ہراساں بھی کیا جاتا ہے جب کہ غاصب اسرائیلی افواج کی جانب سے پابند ی عائد کی گئی ہے کہ گرفتار کیے گئے بچے اپنے لیے کسی وکیل کا بندوبست بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اکثر بچے دوران تفتیش اپنا جرم قبول کر لیتے ہیں، ان بچوں کے جرم میں اسرائیلی فوجیوں کی طرف پتھر پھینکنا ہوتا ہے۔ ان بچوں سے ایسے معاہدوں پر دستخط کروائے جاتے ہیں جو اسرئیلی سرکاری زبان ’’ہیبریوعبرانی‘‘ میں لکھے جاتے ہیں جو کہ بچے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

سادہ الفاظ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بچوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم انتہائی سنگین اور وحشت ناک ہوتے ہیں جو قید و بند کے دوران ان پر روا رکھے جاتے ہیں۔ان بچوں کو سخت سے سخت سزائوں کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں