امریکی دوغلا پن: 8 عدد اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹرز بھارتی فضائیہ کے سپرد کردیئے

نئی دہلی (ڈیلی اردو) پاکستان کو پْر امن رہنے اور مذاکرات کا درس دینے والا امریکا، جنگی تیاریوں میں بھارت کی بھرپور مدد کرنے میں مصروف ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق امریکی کمپنی بوئنگ نے 8 عدد جدید ترین اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹرز آج بھارتی فضائیہ کے سپرد کردیئے ہیں۔

اس حوالے سے ایک تقریب انڈین ایئرفورس بیس پٹھان کوٹ پر منعقد ہوئی جس میں بھارتی حکومت اور فضائیہ کے افسران شریک ہوئے۔ اس موقعے پر 2 اپاچی ہیلی کاپٹروں نے اپنی جنگی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جنہیں ونگ کمانڈر کشتیج اوستھی اور منیش ڈوگرا اْڑا رہے تھے۔

واضح رہے کہ مودی سرکار نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں، ستمبر 2015 کے دوران، امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے 22 عدد اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹرز خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔

معاہدے کی مجموعی لاگت 110 کروڑ ڈالر (تقریباً 8,000 کروڑ بھارتی روپے) ہے جس کے تحت مذکورہ لڑاکا طیاروں کی پہلی کھیپ آج بھارتی فضائیہ کے سپرد کی گئی ہے۔مذکورہ اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹرز کا ورڑن اے ایچ 64 ای (آئی) ہے جو اس سلسلے کے ہیلی کاپٹروں میں جدید ترین، مہنگا ترین اور سب سے ہلاکت خیز بھی قرار دیا جاتا ہے۔

مزید برآں ”اپاچی” وہی ہیلی کاپٹر بھی ہے جو اسرائیلی فضائیہ نے لبنان اور غزہ کی پٹی میں شہری آبادیوں پر حملوں میں متعدد بار استعمال کیا ہے۔

برصغیر میں کشیدہ حالات اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سفاکانہ خلاف ورزیوں کے باوجود بھارتی فضائیہ کو امریکی جنگی ہیلی کاپٹروں کی فراہمی اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو مقبوضہ کشمیر میں رونما ہونے والے انسانی المیے سے کوئی غرض نہیں بلکہ اسے بھارت کا مفاد ہمیشہ کی طرح آج بھی عزیز ہے، کیونکہ ان ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کچھ عرصے کیلیے مؤخر بھی کی جاسکتی تھی۔

اس کے برعکس، موجودہ حالات میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز کی کارروائیوں کیلیے ایسے ہی ہیلی کاپٹروں کی فوری اور اشد ضرورت ہے، جسے امریکا نے بلا تاخیر پورا کردیا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ رافیل کی طرح اپاچی ہیلی کاپٹر کے معاہدے میں بھی کرپشن کا بہت زیادہ امکان ہے کیونکہ عالمی ذرائع کے مطابق، اپاچی ہیلی کاپٹر کی فی یونٹ قیمت (اسلحے سمیت) کسی طرح بھی 40 ملین ڈالر (4 کروڑ ڈالر) سے زیادہ نہیں بنتی۔ اس حساب سے مذکورہ معاہدے کی لاگت 88 کروڑ سے 90 کروڑ ڈالر کے درمیان ہونی چاہیے تھی۔

ممکنہ طور پر یہاں بھی مودی سرکار نے 20 کروڑ ڈالر (1446 کروڑ بھارتی روپے) کمیشن لیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں