لاہور (ویب ڈیسک) گورنر پنجاب چوہدری سرور نے سکھ لڑکی کی مبینہ مذہب تبدیلی اور شادی کے حوالے سے متعلقہ سکھ اور مسلمان خاندانوں کے درمیان صلح کروانے کا دعویٰ کیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں گورنر پنجاب چوہدری سرور نے دعویٰ کیا کہ ننکانہ صاحب میں سکھ لڑکی کا مسئلہ حل ہوگیا اور متعلقہ خاندان بھی مطمئن ہیں۔
Great news for Pakistani & Sikh communities across the world. Issue of Nankana girl was amicably resolved to the satisfaction of the concerned families. The girl is safe & in touch with her family. We shall continue to ensure the rights of minorities in Paistan! #Sikhcommunity pic.twitter.com/ZBiluHTucy
— Mohammad Sarwar (@ChMSarwar) September 3, 2019
چوہدری سرور نے مزید کہا کہ لڑکی محفوظ ہے اور اپنے اہلِ خانہ سے رابطے ہیں، ہم پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کو یقنی بنانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
گورنر پنجاب نے ٹوئٹ کے ساتھ جاری ویڈیو میں کہا کہ میں جگجیت کور کے والد، بھائی اور لڑکے کے والد اور وکیل کا مشکور ہوں کہ وہ میری درخواست پر گورنر ہاؤس آئے، اس ملاقات میں سکھ برادری کے رہنما بھی موجود تھے۔
چوہدری سرور نے کہا کہ پاکستانیوں اور پوری دنیا کے سکھوں کے لیے اطمینان کا باعث ہوگا کہ دونوں گھروں کی آپس میں صلح ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس واقعے پر پوری دنیا میں موجود سکھ بھائی اور بہنیں پُرتشویش تھے اور ناراض تھے۔
گورنر پنجاب کے ہمراہ موجود سکھ لڑکی سے شادی کرنے والے لڑکے کے والد نے کہا کہ ہم لڑکی کے معاملے سے دستبردار ہوتے ہیں اور کسی عدالت سے اسے ہمارے حوالے کیے جانے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر لڑ کی اپنی والد کے ساتھ جانا چاہتی ہے تو چلی جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں یہ اس کے وارث ہیں۔
ویڈیو میں موجود سکھ رہنما نے کہا کہ میں حکومتِ پاکستان، وزیراعظم عمران خان اور گورنر پنجاب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس معاملے پر دونوں خاندانوں کے درمیان صلح کروائی۔
انہوں نے کہا کہ لڑکے کے والد اس معاملے سے دستبردار ہوگئے ہیں کہ ان کا جگجیت کور سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے کہا کہ لڑکی کے والد اور بھائی بھی یہاں موجود ہیں۔
سکھ برداری کے خدمت گزار ہونے کے ناطے میں دونوں خاندانوں کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں، میں کل بھی کہتا تھا اور آج کہتا ہوں کہ مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔
خیال رہے کہ 30 اگست کو ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ننکانہ صاحب کی جانب سے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) پنجاب کو بھیجی گئی مفاہمتی یادداشت کے مطابق 28 اگست کو ننکانہ پولیس اسٹیشن میں 6 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی، جن پر 19 سالہ سکھ لڑکی جگجیت کور کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
مفاہمتی یادداشت میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے ملزمان کی تلاش شروع کی اور لاہور سے ایک ملزم کو گرفتار کیا جبکہ 3 نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی، اس کے علاوہ دیگر 2 ملزمان تاحال مفرور ہیں۔
علاوہ ازیں سکھ لڑکی کے وکیل شیخ سلطان نے پولیس سے رابطہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ جگجیت کور نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور ان کا نام عائشہ رکھا گیا۔
گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے سکھ لڑکی سے پسند کی شادی کرنے والے نوجوان محمد حسان کی 7 ستمبر تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔
اس کے ساتھ ہی گزشتہ روز مذہب تبدیل کر کے مسلمان لڑکے سے شادی کرنے والی سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکی جگجیت کور نے تحفظ فراہم کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے حسان نامی لڑکے سے پسند کی شادی کی۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا تھا کہ کسی نے انہیں اغوا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، ان کی عمر 19 سال ہے اپنا اچھا برا سوچ سکتی ہیں۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 28 اگست کو اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور نام عائشہ رکھا جبکہ ان کے والد اور بھائیوں کی جانب سے ‘مجھے اور میرے شوہر کو ہراساں کیا جا رہا ہے’۔
نوبیہاتا لڑکی نے موقف اختیار کیا تھا کہ پولیس روز میرے شوہر حسان کے گھر پر چھاپے مار رہی ہے، ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔