کراچی (ویب ڈیسک) ہر زمانے میں ایک مخصوص پرچم اقوام عالم کے تشخص کا نشان رہا ہے ، تاریخ انسانی میں علم کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنا کے خود انسان۔
محققین کی رائے کے مطابق تاریخ میں پہلا علم حضرت آدم علیہ سلام نے اپنے جانشین حضرت شیث علیہ السلام کو عطا کیا تھا۔
یونانی جنگجو ہوں یا اشوک کا لشکر ، روم کے سپاہی ہوں یا تاتاری، علم اور علم دار جنگوں کا لازمی جز رہے ہیں، بعد از اعلان نبوت تاریخ اسلام میں صاحب علم اولاد ہاشم کا خاصہ رہا ۔
بدر کے میدان میں حمزہ بن عبدالمطلب خیبر کے معرکے میں علی ابن ابی طالب اور جنگ موتہ میں علم جعفر طیار کو جناب رسالت کے حکم سے عطا ہوا ، ان ساری ہستیوں کی شجاعت اور مردِ میدان ہونا اپنی جگہ، مگر تاریخ اسلام میں جو نسبت عباس ابن علیؑ سے ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔
سن 61 ہجری کے معرکہ حق و باطل میں حسین ابن علیؑ کی مختصر سی فوج کا علم دار ہونے کا شرف بھی حضرت عباسؑ کے حصے میں آیا جنہوں نے اپنی وفا و شجاعت سے علم کو امر کر دیا، تب سے اب تک علم صبر کی علامت اور وفا کا استعارہ ٹھہرا ہے۔
عزادار حسین علم سے نہ صرف منتیں مانگتے ہیں بلکہ خیر و برکت کے لیے اپنے گھروں پر نصب بھی کرتے ہیں۔
عزاداران حسین کے قافلوں پر سایہ فگن یہ علم آج بھی اسی ہمت جرات اور استقامت کا تقاضہ کرتا ہے جس کا مظاہرہ فوج الہیٰ نے یوم عاشور پر کیا تھا۔