ریاض (ڈیلی اردو) سعودی عرب میں متعدد خواتین نے عبایا پہننا ترک کردیا۔ کچھ خواتین عبایا پہنے بغیر شاپنگ سینٹر میں خریداری کی۔ کچھ گھر کے باہر مغربی لباس پہنے ٹہلنے لگیں۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 33 سالہ مشاعل الجلود ان گنی چنی خواتین میں سے ہیں جنہوں نے عوامی مقامات پر عبایہ پہننا ترک کردیا ہے۔
حالیہ دنوں میں مشاعل کی ایسی ہی کچھ تصویریں وائرل ہوئی ہیں جس میں انہیں نارنجی جیکٹ اور سفید چست پاجامہ پہنے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
25 سالہ سماجی کارکن مناہل العتیبی بھی ان میں سے ایک ہیں۔ مناہل کہتی ہیں کہ وہ چار ماہ سے ریاض میں بغیر عبایہ کے رہ رہی ہیں، سڑکوں پر چہل قدمی کرتی ہیں اور ریسٹورانٹ میں کھانا کھاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘میں چاہتی ہوں کہ میں جیسے چاہوں رہوں، بغیر کسی پابندی کے، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ مجھے ایسا کچھ پہننے پر مجبور کرے جو مجھے پسند نہیں’۔
گذشتہ ہفتے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی ٹیلی ویژن سی بی ایس کو دیے گئے ۔انٹرویو میں اشارہ دیا تھا کہ ملک میں لباس کی پابندی میں نرمی کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں پورے جسم کا پردہ لازمی نہیں ہے۔اس انٹرویو کے بعد سعودی عرب میں کچھ خواتین کو عبایا پہنے بغیر دیکھا گیا۔ایک سعودی خاتون کو دارالحکومت ریاض کے ایک شاپنگ مال میں عبائے کے بغیردیکھا گیا۔ایک خاتون مغربی لباس پہن پر اپنے گھر کے بار ٹہلنے لگی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتی ہیں۔ عبایا ایک ڈھیلا ڈھالا سا لباس ہے جو اصل لباس کے اوپر پردے کے لیے پہنا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر سیاہ رنگ کا ہوتا ہے۔ قدامت پسند سعودی عرب میں عبایا خواتین کا روایتی لباس ہے جسے عام طور پر باحیا ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو روشن خیال سمجھا جاتا ہے اور وہ تیزی سے خواتین پر عائد متعدد پابندیاں ختم کر رہے ہیں۔
حال ہی میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی، بغیر محرم گھر سے باہر نکلنے اور بیرون ملک سفر کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔