واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے ہفتے کو سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا ہے۔
مائیک پومپیو نے یمنی حوثی ملیشیا کے اس دعوے کو رد کیا ہے جس میں انھوں نے بقیق اور خریص میں سعودی تیل کمپنی آرامکو‘ پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
سعودی عرب کے وزیر توانائی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تیل تنصیبات پر حملوں سے خام تیل کی پیداوار میں 57 لاکھ بیرل فی دن کمی واقع ہوئی ہے، جو ملک میں تیل کی نصف پیداوار ہے۔
ماہرین کے مطابق اس واقعے سے عالمی تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو سکتا ہے۔
ٹی وی پر نشر ہونے والی ویڈیو میں بقیق میں ڈرون حملے کے بعد آرامکو کے تیل کے سب سے بڑے پراسیسنگ پلانٹ پر لگی آگ کو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ خریص میں دوسرے حملے سے بھی کافی نقصان ہوا ہے۔
سعودی عرب اور مغربی ممالک کا فوجی اتحاد یمنی حکومت کی حمایت کرتا ہے جبکہ یمن میں حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔
اگر ان حملوں کے پیچھے حوثی باغی تھے تو ان کے ڈرونز نے یمن سے سعودی عرب تک کئی میل کا سفر طے کیا ہو گا۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ کے مطابق ماہرین اس بات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے ایران یا عراق میں موجود ان کے حمایتی ہو سکتے ہیں جنھوں نے ڈرونز کی جگہ کروز میزائل استعمال کیے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھنا شروع ہوئی جب گذشتہ سال واشنگٹن نے یکطرفہ طور پر سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے خود کو علیحدہ کر لیا۔ اس کے بعد سے امریکہ نے ایران کے تیل کے شعبے پر از سر نو پابندیاں عائد کر دیں ہیں۔
اپنی ٹویٹ میں امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ڈرون یمن سے آئے۔
Tehran is behind nearly 100 attacks on Saudi Arabia while Rouhani and Zarif pretend to engage in diplomacy. Amid all the calls for de-escalation, Iran has now launched an unprecedented attack on the world’s energy supply. There is no evidence the attacks came from Yemen.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) September 14, 2019
انھوں نے اس واقعہ کو ’دنیا کی توانائی کی فراہمی پر ایک غیر معمولی حملہ‘ قرار دیا ہے۔
مائیک پومپیو نے کہا ’ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایران کی جانب سے کیے گئے اس حملے کی عوامی سطح پر مذمت کریں۔‘
انھوں نے زور دیا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ اشتراک سے کوشش کرے گا کہ توانائی کی منڈیوں میں تیل کی فراہمی بغیر رکے جاری رہے۔
دوسری جانب ایرانی میڈیا کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایران پر سعودی تنصیبات پر ڈرون کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
“The #US has changed its policy of ‘maximum pressure’ to ‘maximum lie’: #Iranian Foreign Ministry Spokesman said reacting to Pompeo’s remarks for blaming Iran for #Yemeni drone attacks on crucial #Saudi #Aramco #oil sites pic.twitter.com/zWpvazgO1i
— Tasnim News Agency (@Tasnimnews_EN) September 15, 2019
سرکاری خبر رساں ادارے سعودی پریس ایجنسی کا کہنا تھا: ’چار بجے (مقامی وقت کے مطابق) آرامکو کی انڈسٹریل سکیورٹی ٹیموں نے بقیق اور خریص میں اپنی دو تنصیبات میں ڈرونز کی وجہ سے لگنے والی آگ سے نمٹنا شروع کیا۔‘
بعد میں انھوں نے اعلان کیا ’آگ پر قابو پا لیا گیا ہے۔
مگر سعودی سرکاری میڈیا نے اپنی خبروں میں یہ نہیں بتایا کہ ان تازہ حملوں کے پیچھے کون ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے فون پر امریکی صدر ٹرمپ کو بتایا ہے کہ ’شدت پسند جارحیت کا مقابلہ کیا جائے گا۔‘
https://twitter.com/Almasirah_Eng/status/1172796954310598659?s=19
یمن میں حوثی ملیشیا نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے مشرقی سعودی عرب میں دنیا کی سب سے بڑی تیل ریفائنری پر حملے کرنے کے لیے ڈرونز کا استعمال کیا جس کے بعد اس میں آگ بھڑک اٹھی۔
https://twitter.com/MasirahTV/status/1172791513048219648?s=19
حوثی ملیشیا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بقیق پلانٹ اور خریص آئل فیلڈ پر حملے کے لیے 10 ڈرون بھیجے تھے۔ اس کے علاوہ حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے خلاف حملوں کا دائرہ وسیع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔