گھوٹکی میں مندر کی بے حرمتی: ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ آگئی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں گزشتہ ہفتے پیش آنے والے اشتعال انگیز واقعات کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ واقعے کے پسِ پردہ فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی سازش اور ہندو برادری میں خوف کی فضا پیدا کرنے کی سازش تھی۔ گھوٹگی میں ہندو برادری کی عبادت گاہوں (مندروں) پر حملے اور فسادات کی منصوبہ بندی پہلے سے تیار کی گئی تھی۔

مذکورہ تحقیقاتی وفد وزارت انسانی حقوق نے تشکیل دیا تھا جس کے لیے اراکین اسمبلی، وکلا، سول سوسائٹی کے نمائندے، صحافی اور انسانی حقوق کے رضاکار شامل تھے۔خیال رہے کہ تحقیقاتی ٹیم کو ایک نجی اسکول کے طالبعلم کی جانب سے اسکول پرنسپل پر لگائے گئے توہین مذہب کے الزام اور گھوٹکی، لاڑکانہ کے مندروں میں توڑ پھوڑ کی تحقیقات کا ذمہ سونپا گیا تھا۔

وفد کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پولیس اس واقعے کا مقدمہ درج کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھی چنانچہ امن و عامہ کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے رینجرز کو بلانا پڑ گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے یہ حقیقت مدِ نظر نہیں رکھی کہ حملے منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے اور اس جرم میں کچھ بااثر افراد بھی شامل تھے اس کے علاوہ پولیس نے صورتحال کو سنبھالنے میں بھی سستی سے کام لیا۔

یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ رپورت مرتب کرنے سے قبل تحقیقاتی ٹیم نے گھوتکی میں ہندو برادری کے رہنماں سے ملاقات کی جنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عدالت عظمی کے احکامات کے تحت اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنائے۔

بعدازاں وفد کے اراکین اس نتیجے پر پہنچے کہ گھوٹکی فسادات فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی سازش تھے۔دوسری جانب ہندو برادری نے پروفیسر کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کی عدالتی تحقیقات کروانے کا بھی مطالبہ کیا۔یاد رہے کہ 2 ہفتے 15 ستمبر کو قبل سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ایک نجی اسکول کے طالبعلم کی جانب سے اپنے استاد پر توہین مذہب کا الزام لگانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں