استنبول (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے دریائے فرات کے مشرقی حصے میں ‘زمینی اور فضائی حملوں’ کا عندیہ دے دیا۔ واضح رہے کہ امریکا اور ترکی نے مذکورہ حصے کو ‘سیو زون’ (محفوظ علاقہ) قرار دیا تھا۔
الجزیرہ میں شائع رپورٹ کے مطابق اے کے پارٹی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رجب طیب اردوان نے کہا کہ ہم زمینی اور فضائی عسکری آپریشن کریں گے۔ ترک صدر نے کہا کہ ‘اس ضمن میں ہماری ساری تیاریاں مکمل ہیں، آپریشن منصوبہ بھی مکمل ہے اور ضروری ہدایات بھی فراہم کردی گئیں’۔
ترک خبر رساں ادارے ٹی آر ٹی کے مطابق طیب اردوان نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے بہت صبر کا مظاہرہ کرلیا ہے لیکن یہ سب بے معنی رہا اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم مشرقی دریائے فرات کو دہشت گردوں سے پاک کرتےہوئے وہاں امن قائم کریں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ترک صدر نے کہا کہ انقرہ نے شام کے شمال مشرقی سرحد سے متصل ‘سیوزون’ کی تشکیل کے لیے انفرادی طور پر بہت کام کیا لیکن امریکا نے اقدامات اٹھانے خاصی تاخیر برتی ہے۔
نیٹو فورسز نے اگست میں شامی سرحد پر سیوزون تشکیل دینے پر آمادگی کی تھی اور ستمبر میں دونوں ممالک کی جانب سے مشترکہ پیٹرولنگ بھی کی۔
تاہم واشنگٹن اور انقرہ کے مابین سیوزون کی حد بندی پر اختلافات ہیں۔ دوسری جانب شامی فورسز (ایس ڈی ایف) نے جواب دیا کہ ‘وہ کسی بھی حملے کی صورت میں بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کریں گے’۔
ترکی کی مرکزی اپوزیشن پارٹی ریبلکین پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے کہا کہ دمشق کو ترکی کے ساتھ مل کر سیو زون کی تشکیل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے’۔ واضح رہے کہ ستمبر میں امریکا کی جانب سے پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے شام سے مکمل طور پر فوجی دستوں کے انخلا کے اعلان کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ امریکا کے پیچھے ہٹنے کے بعد ترکی داعش کے خلاف جنگ کرے گا۔
اس وقت بھی ترک صدر نے شام کے شمالی علاقے میں دریائے فرات کے ساتھ وائے پی جی کے کنٹرول کو ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی وقت بھی شروع کیا جاسکتا ہے تاہم امریکی صدر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعد اب انہوں نے اس میں تاخیر کا اشارہ دے دیا۔
بعدازاں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے شام کے شمالی حصے میں فوجی آپریشن اس وقت تک کے لیے ملتوی کردیا ہے جب تک ہم امریکی فوج کے انخلا کے نتائج نہ دیکھ لیں‘۔
واضح رہے کہ ترکی، کرد باغیوں کو دہشت گرد تصور کرتا ہے جس کی ایک شاخ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) بھی ہے، جو ترکی کے سرحدی علاقے میں کرد خود مختار ی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔
استنبول میں ایک تقریر کے دوران رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ ترکی فی الحال شام میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی پر توجہ مرکوز رکھے گا جبکہ شمال مشرقی شام میں کرد باغیوں پر حملے عارضی طور پر معطل کردیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں روس کا کہنا تھا کہ ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ شام میں امریکا کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔