چین: لاکھوں مسلمان صوبہ سنکیانگ کے حراستی مراکز میں قید ہیں، نیو یارک ٹائمز کا انکشاف

واشنگٹن (ڈیلی اردو) چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں لاکھوں مسلمان خاندان حراستی مراکز میں قید کیے گئے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز میں 403 صفحات پر مشتمل چین کے سرکاری دستاویزات پر رپورٹ شائع کی گئی ہے جس میں اعلیٰ حکام نے مقامی حکام کو ہدایات جاری کیں کہ مسلمان اقلیت پر بالکل رحم نہ کیا جائے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ چین میں ملکی حکومت کی سرکاری دستاویزات کے افشاء کا یہ اتنا بڑا واقعہ ہے، جس کی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔ ان دستاویزات کے مطابق ملکی صدر شی جن پنگ نے ریاستی اہلکاروں کو یہ حکم دیا کہ وہ صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں پر سکیورٹی کریک ڈاؤن کے دوران علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف ‘قطعاﹰ کوئی رحم نہ کھائیں‘۔

اے ایف پی کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ چین میں متعدد نظر بندی کیمپس بنائے گئے ہیں جن میں 10 لاکھ سے زائد ایغور افراد نظر بند ہیں۔ جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جو مسلمان طلبا دیگر علاقوں میں تعلیم حاصل کرکے سنکیانگ لوٹے اور خاندانوں کو غائب پایا۔ اُن سے کہا گیا کہ خاموشی اختیار کریں ورنہ اُن کے خاندانوں کی مدت حراست میں توسیع ہو جائے گی۔

دستاویزات میں درج ہے کہ گزشتہ تین سال ميں چینی حکام نے 10 لاکھ یغور، قازق مسلمانوں کو حراستی مراکز اور جیلوں میں ڈالا گیا اور مظالم ڈھائے گئے جبکہ ان حراستی مراکز کو تربیت گاہیں قرار دیا گیا جہاں اسلامی انتہا پسندی سے نمٹا جا رہا تھا۔

چین کی وزارت خارجہ یا سنکیانگ کے حکام کی جانب سے ان دستاویزات کے حوالے سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔

چینی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی آبادی کی ‘ذہنی اور سماجی تربیت‘ کے نام پر قائم کیے جانے والے حراستی مراکز کا سلسلہ 2016 میں اس وقت بہت زیادہ شدت اختيار کرگيا جب بیجنگ حکومت نے سنکیانگ میں چَین چوآن گُو نامی اہلکار کو کمیونسٹ پارٹی کا نیا علاقائی سربراہ مقرر کیا۔

واضح رہے کہ چین ابتدا میں ایسے کسی بھی سینٹرز کی تردید کرتا رہا ہے۔ تاہم بعد ازاں اس نے تسلیم کیا کہ یہ فنون سکھانے کے مراکز ہیں جہاں لوگوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ تاکہ انہیں انتہا پسندی اور تشدد سے دور کیا جا سکے جب کہ ان مراکز میں انہیں تعلیم اور نوکری کی بھی دی جاتی ہے۔

دوسری جانب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے یہ حقائق سامنے لائے جاتے رہے ہیں کہ یہ مراکز درحقیقت جیلوں کی طرح ہیں جہاں بڑے پیمانے پر لوگوں کو رکھا جا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں