خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنی والی این جی اوز نے بچہ دفتر لانے پر خاتون ورکر سے استعفیٰ لے لیا

پشاور (ڈیلی اردو) پشاور میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ اپنے خاتون ورکر کو صرف اس وجہ سے نوکری سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے کہ وہ اپنا شیرخوار بچہ بھی دفتر لایا کرتی تھی۔

ٹی این این نیوز ایجنسی کے مطابق کمیونٹی اپریزل اینڈ موٹیویشن پروگرام [کیمپ] نامی این جی او میں میڈیا کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کرنے والی زینت بی بی نے اپنا استعفیٰ اور ادارے کی طرف سے اس کے منظور ہونے کے حوالے سے ایمیلز سوشل میڈیا پر شئیر کی ہے اور ساتھ میں لکھا ہے کہ خیبر پختونخوا اور نئے ضم شدہ اضلاع میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی این جی او نے انہیں فقط اس وجہ سے نوکری سے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنا چھ ماہ کا بچہ بھی ساتھ لایا کرتی تھی۔

نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے زینت بی بی کا کہنا تھا کہ رواں سال اکتوبر میں جوائن کرنے کے چند ہی دن بعد ان کو اپنے سینئیرز نے بچہ گھر پر چھوڑنے کا کہا لیکن ان کیلئے ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ انکا شوہر سرکاری ملازم ہے اور پشاور میں انکا کوئی دوسرا رشتہ دار نہیں ہے۔

زینت کا کہنا تھا کہ انہوں نے انتظامیہ کو دفتر کے اندر ایک خالی کمرہ بے بی کئیر سنٹر کے طور پر الاٹ کرنے کیلئے کئی بار درخواست کی جس میں ضرورت کا سارا سامان بھی وہ اپنے پیسوں سے خریدنے کیلئے تیار تھی لیکن انتظامیہ ہر بار اس موقف پر کمرہ دینے سے انکار کرتی رہی کہ استعمال میں لانے سے دفتر کا بجلی خرچ زیادہ ہوجائے گا۔

زینت کے مطابق ان دو مہینوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جس میں سٹاف نے انہیں تنگ نہیں کیا ہو، کبھی کہتے تھے کہ تم ایک بری ماں ثابت ہو رہی ہوں، کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ بچے کی وجہ سے دفتر کا سارا ماحول خراب ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ادارہ کسی بھی صورت ان کو بچے سمیت مزید نوکری رکھنے پر امادہ نہیں تھا۔

سماجی رابطوں کے ویب سائٹس پر آنے سے بھی اس معاملے پر ایک بحث چل پڑی ہے جن میں زیادہ تر صارفین متعلقہ این جی اوپر سخت تنقید کر رہے ہیں۔

دوسری جانب زینت بی بی کی ای میل کے جواب میں کیمپ کے سی ای او نوید شنواری نے انکا استعفیٰ منظور کیا ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ ای میل میں حقائق کے برعکس بات کی گئی ہے۔ نوید شنواری نے یہ اعتراف کیا ہے کہ خاتون ملازمہ کو اپنا بچہ گھر پر چھوڑنے کا کہا گیا تھا کیونکہ آفس میں ڈےکئیر کی کوئی سہولت نہیں ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں