بغداد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) عراق کے دارالحکومت بغداد میں جمعرات کو ایک مسلح شخص نے فائرنگ کر کے 4 مظاہرین سمیت 6 افراد کو قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد مظاہرین نے موقع پر ہی اس سے انتقام لے لیا ہے۔ انھوں نے اس شخص کو غیرمسلح کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر پھانسی چڑھا دیا ہے۔
Demonstrators have disarmed and hanged a gunman in a Baghdad square after he killed six people, including four anti-government protesters. https://t.co/PjkPMgvmJp
— The Associated Press (@AP) December 12, 2019
لیکن بغداد کے میدان التحریر میں گذشتہ چند ماہ سے مظاہرے کرنے والے عراقیوں کی احتجاجی تحریک نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور اس سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اس مسلح شخص کو ہلاک کرنے والے افراد ان کی تحریک کا حصہ نہیں تھے۔
عراقی حکام کا کہنا ہے کہ یہ مسلح شخص منشیات سے متعلق الزامات پر سکیورٹی فورسز کو مطلوب تھا۔ اس بھگوڑے شخص نے پہلے دو دکانداروں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا اور اس کے بعد بغداد کے وثبہ چوک کے نزدیک چار مظاہرین کو گولی مار کر قتل کردیا۔
اس کے بعد مشتعل مظاہرین نے اس پر قابو پالیا، اس کو غیر مسلح کرکے مارنا پیٹنا شروع کردیا جس سے وہ بے ہوش ہوگیا۔ پھر مظاہرین نے اس کو ٹریفک کے ایک کھمبے سے لٹکا دیا۔ اس دوران میں لوگ اپنے موبائل فون سے اس کی تصاویر اور ویڈیو بناتے رہے تھے اور ان میں سے بعض ویڈیوز انٹرنیٹ پر پوسٹ کی گئی ہیں۔
https://twitter.com/morade_irani/status/1205111885714087941?s=08
العربیہ کے مطابق اس واقعے کے بعد بااثر شیعہ لیڈر مقتدیٰ الصدر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جن افراد نے اس شخص کو قتل کیا ہے، اگر ان کی اڑتالیس گھنٹے میں شناخت نہیں کی جاتی تو وہ اپنی ملیشیا سریہ السلام کو میدان التحریر کو خالی کرنے کا حکم دے دیں گے۔سریہ السلام کے ارکان میدان التحریر میں مظاہرین کے تحفظ کے لیے موجود ہیں اور ان کی شناخت نیلے ہیٹ والے کے طور پر کی جاتی ہے۔
تحریر چوک میں موجود مظاہرین نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے اور اس میں تشدد کے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہناہے کہ ’’ان کی تحریک پُرامن ہے اور وہ کسی اپنے خالص انقلاب کے تشخص کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔اس لیے ہم یہ اعلان کرتے ہیں ہم پُرامن ہیں اور اس واقعے سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘
وثبہ چوک میدان التحریر کے نزدیک ہی واقع ہے۔احتجاجی تحریک کے دوران میں تشدد کے حالیہ واقعات اسی چوک میں پیش آئے ہیں۔ بدھ کو عراقی سکیورٹی فورسز نے علاقے سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے تھے جس سے اکتیس افراد زخمی ہوگئے تھے۔
گذشتہ جمعہ کی شب نقاب پوش مسلح حملہ آوروں نے میں دریائے دجلہ پر واقع السنک پُل پر احتجاج کرنے والے مظاہرین پر دھاوا بول دیا تھا اور اندھا دھند فائرنگ کی جس سے 23 افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے۔ ان کی فائرنگ کا سلسلہ ہفتے کی صبح تک جاری رہا تھا اور انھوں نے کئی ایک مظاہرین کو چاقو بھی گھونپے تھے۔
حکومت مخالف مظاہرین پر یکم اکتوبر سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران میں یہ سب سے بڑا خونیں حملہ تھا۔ عراقی حکام کے مطابق اس حملے میں ایک سو تیس سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔طوائف الملوکی کا شکار عراق میں مظاہرین کی ایک دن میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتیں تھیں۔
واضح رہے کہ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکتے اور براہ راست فائرنگ کرتے رہتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ سکیورٹی فورسز کے بجائے مسلح حملہ آوروں نے مظاہرین پر کھلم عام دھاوا بولا تھا اور ان کا عراقی سکیورٹی فورسز سے کوئی تعلق نہیں مگر سرکاری فورسز یا کوئی گروپ اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہوا۔ حکومت مخالف مظاہرین نے ایران کی حمایت یافتہ عراقی ملیشیاؤں پر اس حملے کا الزام عاید کیا تھا۔ ان ملیشیاؤں کے جنگجو گذشتہ ہفتوں کے دوران میں بغداد اور عراق کے جنوبی شہروں میں مظاہرین پر ایسے ہی حملے کرتے رہے ہیں۔