عراق میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کا دھاوا، فائرنگ، توڑ پھوڑ، سامان کو آگ لگا دی

بغداد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) عراق کے دارالحکومت بغداد میں سیکڑوں مشتعل مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا ہے۔ انھوں نے سفارت خانہ کا بیرونی آہنی دروازہ توڑ دیا ہے، وہ اس کے احاطے میں گھس گئے اور سامان کو آگ لگا دی، توڑ پھوڑ اور وہاں سے فائرنگ اور سائرن بجنے کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق دھاوا بولنے کی کوشش امریکی حملے میں شہید ہونے والے ملیشیا جنگجوؤں کے جنازوں کے بعد ہوئی جس کے بعد وہ سخت سیکیورٹی والے بغداد کے گرین زون کی جانب مارچ کرتے ہوئے امریکی سفارتخانے تک پہنچ گئے۔

اطلاعات کے مطابق جب مظاہرین نے سفارت خانے کی بیرونی دیوار عبور کی تو اندر تعینات امریکی فوجیوں نے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ مظاہرین نے امریکی پرچم نذر آتش کیے اس کے علاوہ ایک گارڈ ٹاور کو بھی بظاہر نذرِ آتش کر دیا گیا ہے۔

ان مظاہرین میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا عصائب اہل الحق کے رہنما قیس الخزالی اور کئی دیگر سینیئر ملیشیا رہنما بھی موجود تھے جبکہ عمارت کے گرد موجود باڑ پر کتائب حزب اللہ کے پرچم آویزاں کر دیے گئے۔

روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ملیشیا رہنما قیس الخزالی نے کہا کہ ‘امریکیوں کی ایران میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ برائیوں کی جڑ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ نکل جائیں۔’

خزالی عراق کے سب سے بااثر اور پسند کیے جانے والے ملیشیا رہنماؤں میں سے ہیں جبکہ وہ ایران کے سب سے اہم اتحادیوں میں شامل ہیں۔

ملیشیا کمانڈر جمال جعفر ابراہیمی عرف ابو مہدی المہندس اور بدر آرگنائزیشن کے رہنما ہادی العامری بھی اس مظاہرے میں موجود تھے۔

عراقیوں نے منگل کے روز سفارت خانے پر یہ حملہ امریکی طیاروں کی اتوار کو عراق میں ایران نواز شیعہ ملیشیا کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں پر تباہ کن بمباری کے بعد کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پچیس اہلکار شہید اور پچاس سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔

سفارت خانہ کے باہر عراقی سکیورٹی فورسز کے اہل کاروں اور عمارت کے اندر موجود امریکی سکیورٹی فورسز نے کتائب حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے یا اس کے ہمدرد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں۔ سفارت خانہ کے باہر موجود مظاہرین سے میگافون (صوت المکبر) کے ذریعے بھی منتشر ہونے کی اپیل کی تھی لیکن انھوں نے اس کو نظرانداز کردیا۔

عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کی بہت تھوڑی مقدار استعمال کی گئی ہے اور سکیورٹی فورسز کے اہل کار صوت المکبر کے ذریعے ہی ان سے منتشر ہونے کا کہہ کررہے تھے۔ مشتعل مظاہرین نے سفارت خانے کی بیرونی دیوار کے ساتھ نصب سکیورٹی کیمرے بھی توڑ دیے ہیں، عمارت کی جانب پتھراؤ کیا ہے اور وہاں احتجاج جاری رکھنے کے لیے خیمے گاڑ دیے ہیں۔

مظاہرین نے کتائب حزب اللہ کے پرچم اٹھا رکھے تھے،وہ امریکا مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ انھوں نے عمارت کے اندر پانی کی بوتلیں پھینکی ہیں۔ وہ بیرونی گیٹ کے ساتھ واقع استقبالیہ میں شیشے والی کھڑکیوں کے اندر بیٹھے سکیورٹی اہلکاروں پرطعن وتشنیع کرتے اور انھیں جلی کٹی سناتے رہے ہیں۔

انھوں نے کتائب حزب اللہ کی حمایت میں کھڑکیوں اور دروازوں پر نعرے لکھ دیے اور وہاں خاکے بھی بنائے ہیں۔ فوری طور پر اس تمام احتجاجی مظاہرے میں کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ سکیورٹی کے عملہ کو مظاہرین کے سفارت خانے کے باہر جمع ہونے کے بعد اندر بلا لیا گیا تھا۔

روئٹرز نے عراقی وزارتِ خارجہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ بغداد میں امریکی سفیر اور سفارتی عملے کو وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ بغداد میں متعیّن امریکی سفیر اور دوسرا عملہ سکیورٹی ابتر ہونے کے خدشے کے پیش نظر پہلے ہی عراقی دارالحکومت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے کسی نامعلوم منزل کی جانب روانہ ہوگئے ہیں۔

امریکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سفارت خانہ میں اب بہت تھوڑا عملہ رہ گیا ہے۔

واشنگٹن نے عراقی شیعہ ملیشیا کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے ایک روز بعد سوموار کو عراقی حکام پر اپنے ملک میں ’’امریکی مفادات‘‘ کے تحفظ میں ناکامی کا الزام عاید کیا تھا۔امریکی فوج نے عراق اور شام میں کتائب حزب اللہ کے پانچ اہداف پر تباہ کن بمباری کی تھی۔اس نے یہ فضائی حملے گذشتہ جمعہ کو شمالی شہر کرکوک میں عراقی فوج کے ایک اڈے پر راکٹ میں ایک امریکی شہری کی ہلاکت کے ردعمل میں کیے تھے۔ایک امریکی عہدہ دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایف 15 لڑاکا جیٹ کے ذریعے یہ حملے کیے گئے تھے۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے مطابق عراق اور شام میں کتائب حزب اللہ کے پانچ ٹھکانوں، اسلحہ ڈپوؤں اور کمان اور کنٹرول مراکز کو ان حملوں میں ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا گیا تھا۔

پینٹاگان کا کہنا ہے کہ ان ٹھکانوں کو یہ گروپ امریکا اور اس کی اتحادی فورسز پر عراق میں حملوں کے لیے استعمال کررہا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں