قاسم سلیمانی کی شہادت: روس، چین، فرانس، پاکستان سمیت مختلف ممالک کی مذمت

ماسکو/بیجنگ/پیرس/بغداد/دمشق/اسلام آباد (ڈیلی اردو + نیوز ایجنسیاں) ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر امریکی ایوان نمائندگان نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ حملے سے خطے میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ روس، چین، فرانس، عراق اور شام سمیت مختلف ممالک نے حملے کی ٘مذمت کی، امریکا نے اپنے شہریوں کو فوری عراق سے نکلنے کی ہدایت کر دی۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا امریکی فضائی حملے میں قتل، امریکی ایوان نمائندگان کی سربراہ نینسی پیلوسی نے خطے میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھنے کا خدشہ ظاہر کر دیا۔

عراق کے نگران وزیراعظم نے امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے جارحیت قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکی حملے سے عراق میں تباہ کن جنگ کا آغاز ہو گا۔ ادھر عراقی سیاستدان اور ملیشیا لیڈر مقتدیٰ الصدر نے مہدی آرمی دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

عراق میں امریکی سفارتخانے نے اپنے شہریوں کو ہدایت جاری کرتے ہوئے فوری عراق چھوڑنے کی اپیل کی ہے۔

شام نے امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

روس کا کہنا ہے کہ حملےسے کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ حکومت فرانس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حملے نے دنیا کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔

روس کے دفترِ خارجہ نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ‘امریکی حملے کے باعث سلیمانی کی ہلاکت کو ایک غیر محتاط قدم کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے پورے خطے میں تناؤ کی کیفیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔’
‘سلیمانی نے ایران سے وفاداری نبھاتے ہوئے قومی مفادات کا دفاع کیا۔ ہم اس موقع پر ایران کے عوام سے بھرپور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔’

ترجمان چینی وزارت خارجہ نے پیغام دیا ہے کہ متعلقہ فریقین بالخصوص امریکا مزید کشیدگی سے بچنے کیلئے تحمل کا مظاہرہ کریں۔

پاکستان نے مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے علاقائی امن واستحکام کو سنگین خطرہ ہے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اہم بیان میں کہا گیا ہے کہ خود مختاری اور سالمیت کا احترام اقوام متحدہ چارٹر کے بنیادی اصول ہیں۔ یکطرفہ اقدامات اور طاقت کے استعمال سے گریز بہت اہم ہے۔

پاکستان نے تمام فریقین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لئے تعمیری رابطے اور سفارتی چینل استعمال کریں۔ فریقین اقوام متحدہ چارٹر اور عالمی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملہ حل کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں