پنجاب: مشتعل مظاہرین کا گرودوارہ ننکانہ صاحب پر حملہ

لاہور (ڈیلی اردو) صوبے پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں جمعے کو معمولی جھگڑے کے مشتعل ہجوم نے سکھوں کے مذہبی مقام گرودوارہ ننکانہ صاحب کا تقریباً چار گھنٹے سے زائد وقت تک محاصرہ کیے رکھا۔

مشتعل افراد نے ننکانہ صاحب گرودوارے پر پتھراؤ کیا اور نعرہ بازی کی۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شدت پسند نوجوان کہہ رہا ہے کہ ننکانہ صاحب کا نام تبدیل کرکے غلام مصطفیٰ ٹاون رکھ دیا جائے گا۔ اس شخص کا مزید کہنا تھا کہ ہم ایک  سکھ کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

بی بی سی کے مطانق یہ محاصرے اس وقت شروع ہوا جب دودھ دہی کی ایک دکان پر ہونے والے ایک جھگڑے نے طول پکڑا اور اسے علاقے میں ایک پرانے واقعے کے ساتھ ملانے کی کوشش میں مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس اگست میں ننکانہ صاحب کے ایک سکھ خاندان نے چھ افراد پر ان کی جواں سال لڑکی کو مبینہ طور پر اغوا کرنے اور جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کے بعد ایک مسلمان لڑکے سے شادی کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔

تاہم پولیس نے موقف اپنایا تھا کہ لڑکی نے لاہور کی ایک عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے قانونِ شہادت کی دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ ’اس نے بغیر کسی دباؤ کے، اپنی مرضی کے مطابق اسلام قبول کرنے کے بعد محمد احسان نامی لڑکے سے شادی کی ہے۔‘

چیئرمین پنجابی سکھ سنگت گوپال سنگھ چاولہ جو اس گرودوارہ کے اندر موجود تھے نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ مشتعل ہجوم جس میں زیادہ تر کم عمر افراد شامل تھے، نے گرودوارہ کے گیٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔

گوپال سنگھ کے مطابق اس وقت گرودوارہ کے اندر تقریباً 20 افراد موجود تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

تاہم پاکستان کے وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے جو خود اس حلقے سے ہیں بی بی سی کے نامہ نگار کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک ذاتی جھگڑے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ ویڈیو میں جو شخص نعرے لگواتے دکھائی دے رہا ہے وہ مذہبی رحجان رکھتا ہے۔ ان کے مطابق مٹھی بھر لوگ احتجاج کر رہے تھے جبکہ وہاں بڑی تعداد تماشہ بینوں کی بھی موجود تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس معاملے پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

جبکہ گوپال چاولہ نے بتایا کہ ضلع ننکانہ صاحب کی پولیس نے ان میں سے دو افراد کو گرفتار کر لیا جس کے بعد مبینہ طور پر لڑکی کو اغوا کرنے والے محمد احسان کے خاندان کے افراد نے پہلے شہر کے ایک چوک (چونگی نمبر 5) پر احتجاج کیا اور بعد میں گرودوارہ کا رخ کر لیا۔

تاہم گرودوارہ ننکانہ صاحب کے اندر موجود افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پولیس نے گرفتار افراد کو رہا کر دیا جس کے بعد احتجاج کا سلسلہ ختم ہو گیا۔

گوپال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’آج سے گرودوارہ ننکانہ صاحب میں گرو گوبند سنگھ کے جنم دن کی تقریبات کا آغاز ہو رہا تھا۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس اور انتظامیہ نے سکھ برادری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مکمل تعاون کیا ہے، اسے مذہبی مسئلے کے طور پر پیش کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہ ایک خاندان کا پولیس گرفتاریوں کے خلاف ردعمل تھا۔ البتہ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ گرودوارہ کے گیٹ کو نقصان پہنچانے والے افراد پر توہین مذہب کا مقدمہ قائم کیا جائے۔‘

پنجاب حکومت کا موقف

پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بی بی سی کو بتایا کہ کچھ دیر قبل ان کی علاقہ ڈی سی راجہ منصور سے بات ہوئی ہے اور ان کے مطابق اب وہاں حالات اور معاملات قابو میں ہیں۔

انھوں نے بھی یہ ہی بتایا کہ یہ معاملہ ایک انفرادی جھگڑے سے شروع ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ’محمد احسان نامی مسلمان لڑکا جس نے مبینہ طور پر سکھ لڑکی کو اغوا کیا تھا، کے چچا کی دودھ دہی کی دکان ہے جس پر اس کا بھائی بھی کام کرتا ہے۔ اس دکان پر ایک شہری کی طرف سے دہی میں مکھی کی شکایت کی گئی جس کے بعد جھگڑا ہوا اور پولیس کو اطلاع کر دی گئی جس نے موقع پر پہنچ کر چچا اور بھتیجے کو گرفتار کر لیا۔ جس کے بعد ان دونوں نے اس کو مذہبی رنگ دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب لڑکے کے والد نے انتظامیہ سے معافی مانگی ہے۔‘

فیاض الحسن چوہان کے مطابق انڈیا اور انڈین میڈیا اس معاملے کو غلط رنگ دے کر متنازعہ شہریت بل اور کشمیر سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔

بلاول بھٹو کا ننکانہ صاحب پر حملے کی مذمت

چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی ‏بلاول بھٹو زرداری نے ننکانہ صاحب میں گردوارہ پر ہجوم حملے کی مذمت کی  انہوں نے کہا کہ حکومت فوری طور پر ننکانہ صاحب میں امن بحال کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ننکانہ میں سکھ کمیونٹی کا تحفظ قومی ذمہ واری ہے اور پیپلز پارٹی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا عزم رکھتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

اس واقعے کی اطلاع کے بعد سوشل میڈیا پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان میں موجود انڈیا کے ہائی کمیشن نے ٹویٹ کیا جس میں انھوں نے ننکانہ صاحب گرودوارے کے باہر مظاہرے کی شدید مذمت کی۔

جبکہ انڈیا کے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے ٹویٹ کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے اور گرودوارہ ننکانہ صاحب میں پھنسے سکھ یاتریوں کو مشتعل ہجوم سے تحفظ کی اپیل کی۔

مقدمے کا پس منظر

ننکانہ صاحب کے سٹی تھانے میں ستمبر 28 ستمبر تاریخ کو منموہن سنگھ نامی شخص کی درخواست پر چھ افراد کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا۔ منموہن سنگھ نے الزام عائد کیا تھا کہ ان افراد نے ان کے گھر میں گھس کر اسلحے کی نوک پر ان کی بہن جگجیت کور کو اغوا کیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے منموہن سنگھ نے بتایا تھا کہ لڑکی کی عمر 18 سال سے کم ہے۔ ’اس کی عمر 16 یا 17 سال ہو گی۔ اس کا ابھی شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا۔‘

اس سے قبل گذشتہ برس لڑکی اور لڑکے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں لڑکی کو اسلام قبول کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس میں وہ ویڈیو میں نظر نہ آنے والے ایک تیسرے شخص کو بتا رہی تھیں کہ ان کا نیا نام عائشہ رکھا گیا ہے۔

منموہن سنگھ کا مؤقف تھا کہ ’جگجیت کور کو اسلام جبراً قبول کروایا گیا ہے۔ اگر آپ ویڈیو میں دیکھیں تو اس میں بھی وہ سہمی ہوئی نظر آ رہی ہے۔‘

جگجیت کور کے خاندان نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت ان کو بازیاب کروائے اور واپس گھر بھیجے، مگر منموہن سنگھ کے مطابق ننکانہ پولیس ان کو ٹالتی رہی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں