افغانستان سے داعش کے گرفتار جنگجوؤں کے اہلخانہ کی پاکستان واپسی

کابل (ڈیلی اردو) افغانستان کے صوبے ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں ہتھیار پھینک کر خود کو افغان حکومت کے حوالے کرنے والے داعش کے پاکستانی جنگجوؤں کے اہلِ خانہ کو ان کے رشتے داروں کے حوالے کر دیا گیا۔

ننگرہار حکومت آفیشل میڈیا سنٹر کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں ان خواتین اور بچوں کو اور پاکستان سے انہیں لینے کیلئے آنے والے ان کے رشتہ داروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں بیان کیے گئے حقائق کے مطابق داعش کے سقوط کے بعد تسلیم ہونے والے جنجوؤں کے اہلخانہ کیلئے جلال آباد میں ایک مرکز بنایا گیا، سہولیات دی گئیں، اب پہلے مرحلے میں جمعرات کو 50 خواتین اور 76 بچوں کو، اس تصدیق کے بعد کہ یہ ان کے محرم اور ان کے رشتہ دار ہیں، اُن کے پاکستانی رشتے داروں کے حوالے کیا جائے گا۔

افغان حکام کے مطابق ان خاندانوں میں وادی تیرہ، ضلع اورکزئی، باجوڑ اور پشاور سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچے شامل ہیں۔

ویڈیو میں ضلع خیبر کی وادیِ تیرہ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ نے بتایا کہ وہ تین خواتین اور چار بچوں کو لینے آئے ہیں جو پانچ سال قبل افغانستان آئے تھے۔

افغان حکام کے مطابق پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں سے داعش کے ہزاروں جنگجو افغانستان آئے تھے، جو بعد میں اپنے بیوی بچے بھی ساتھ لے آئے۔ یہ لوگ ننگرہار کے اُن علاقوں میں رہ رہے تھے جن پر داعش کا کنٹرول تھا۔

جلال آباد کے ایک قبائلی سربراہ ملک عثمان نے جرگے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جن خواتین اور بچوں کے لواحقین اُنھیں لینے آئیں گے صرف اُن ہی کو خواتین اور بچے حوالے کئے جائیں گے۔

خیال رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے نومبر 2019 میں جلال آباد میں یہ اعلان کیا تھا کہ جنگجوؤں کے خاندانوں کو قبائلی عمائدین کے ذریعے اُن کے پاکستانی رشتے داروں کے حوالے کیا جائے گا۔

نومبر 2019 میں افغان حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ داعش کے 1300 سے زیادہ جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اپنے آپ کو افغان فورسز کے حوالے کر دیا ہے۔

اگست 2016 میں افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل جان نکولسن نے دعویٰ کیا تھا کہ داعش کے ستر فیصد جنگجو پاکستانی ہیں۔

جنرل جان نکلسن کے مطابق یہ جنگجو پہلے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ تھے لیکن قبائلی علاقوں میں ہونے والے فوجی آپریشن ’ضرب عضب‘ آپریشن کی وجہ سے یہ جنگجو افغانستان چلے گئے اور وہاں اُنھوں نے خود کو دولتِ اسلامیہ سے منسلک کر لیا۔

پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں کے بیشتر شدت پسند افغانستان میں داعش کے آنے کے بعد اُن کے ساتھ منسلک ہوگئے تھے، جنہوں نے ننگرہار کے ضلع اچین میں اپنے ٹھکانے بنا لیے تھے۔

اب داعش کے یہ جنگجو بیشتر علاقوں پر اپنا کنٹرول کھونے کے باعث اسلحہ پھینک کر اپنے آپ کو افغان حکام کے حوالے کررہے ہیں تاہم عینی شاہدین کے مطابق کئی اب بھی ضلع اچین کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں مقیم ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں