سوات: ریگولیٹری اتھارٹی کی ناقص کارکردگی، غیرمعیاری تعلیمی اداروں میں اضافہ

سوات ( تحقیقی رپورٹ: عدنان باچا) صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سیکڑوں کی تعداد میں مشرومز گروتھ سکولوں کے ناقص معیار تعلیم سے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے قائم کردہ پرائویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کی غیر تسلی بخش کارکردگی سے اِن سکولوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

وادی سوات تعلیم کے حوالے سے ریاستی دور میں سب سے آگے رہا لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لئے سیکڑوں تعلیمی ادارے قائم کئے گئے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی ادارے بھی وقتاً فوقتاً وجود میں آتے رہے۔ وادی میں جتنے سرکاری سکول ہیں اس سے کئی سو زیادہ نجی تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے کندھوں پر تعلیم کا آدھا بوجھ تو ہے مگر اکثریتی تعلیمی ادارے صرف بورڈ میں پوزیشن حاصل کرنے تک محدود ہیں ۔ سکولوں میں بچوں کی تربیت کا فقدان ہے اور بچوں کو رٹی رٹائی تعلیم فراہم کی جا رہی ہے۔

محکمہ تعلیم کی جانب سے ملنے والے اعدادوشمار کے مطابق سوات میں 848 سرکاری تعلیمی ادارے لڑکوں کے لئے اور 432 ادارے لڑکیوں کے لئے ہیں۔ سوات تعلیمی بورڈ کے مطابق ضلع بھر میں رجسٹرڈ نجی سکولوں کی کل تعداد 731 ہے۔ ان نجی سکولوں میں 248 پرائمری، 143 مڈل، 225 ہائی جبکہ 115 ہائیر سیکنڈری سکولز ہیں ۔ پرائویٹ سکول منیجمنٹ ایسوسی ایشن سوات کے مطابق ان کے ساتھ ضلع بھر میں رجسٹرڈ و ان رجسٹرڈ سکولوں کی تعداد 1500 ہے جن میں تقریباً سو کے قریب ایسے سکول ہیں جن کی رجسٹریشن ہونی ہے یا رجسٹریشن کے عمل میں ہیں۔

سکول بناؤ پیسہ کماؤ

سوات میں معیاری تعلیم کی فراہمی میں نجی تعلیمی اداروں کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن گزشتہ ایک دہائی سے اکثریتی تعلیمی ادارے صرف بورڈ میں پوزیشن حاصل کرنے تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں ۔ اکثریتی تعلیمی اداروں میں بچوں کی اخلاقی تربیت پر خاص توجہ نہیں دی جاتی بلکہ رٹی رٹائی تعلیم مہیا کی جاتی ہے اور بچوں کو اس بات کا قائل کیا جاتا ہے کہ جو بورڈ میں پوزیشن حاصل کر لے گا وہی قابل اور کامیاب تصور ہوگا۔ تعلیم پر کام کرنے والی تنظیمیں الف اعلان اورادھیانہ کی رپورٹس کے مطابق سوات میں نجی تعلیمی اداروں نے باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل اختیارکرلی ہے ۔ لوگ پیسہ بنانے کے لئے سکول کھول لیتے ہیں اور چند ہی سالوں میں بہت سارا پیسہ اکھٹا کرلیتے ہیں ۔ ماہر تعلیم فیاض احمد نے بتایا کہ نجی ادارے معیاری تعلیم کی فراہمی کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اصل میں یہ ادارے سکول بناؤ پیسہ کماؤ کی منطق پر عمل پیرا ہیں ۔ سکولوں میں بچوں کی اخلاقی تربیت پرخاطر خواہ کام نہیں جاتا اور بچوں کو رٹی رٹائی تعلیم کے ذریعے صرف بورڈ میں پوزیشن کے حصول کے لئے تیارکرتے ہیں ۔’’ جس طرح ایک کارخانے میں خاص قسم کی پراڈکٹ تیار کی جاتی ہے اُسی طرح سکولوں میں بچوں کے پراڈکٹ تیار ہوتے ہیں ۔‘‘

نجی سکول میں زیر تعلیم ایک بچے کے والد محمد سلیمان نے گفتگوکے دوران کہا کہ اُن کے بچے ایک معیاری تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بچوں کی اخلاقی تربیت پر خاص توجہ نہیں دی جاتی ۔ ہر مہینے ٹیسٹوں، امتحانوں اور اینول چارجز کے نام پر ہزاروں روپے بٹورے جاتے ہیں ۔ ’’ اگر مہینے کی فیس لیٹ ہوجائے تو اس کا اثر بچوں پر نہیں پڑنا چاہئے، سکولوں میں فیس کی عدم ادائیگی پر بچوں کو کلاس سے باہر کھڑا کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات گھر واپس بھیج دیا جاتا ہے جس سے بچے احساس محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔‘‘

نجی تعلیمی اداروں کی درجہ بندی

محکمہ تعلیم، سوات تعلیمی بورڈ، نجی سکولوں کی تنظیموں اور دیگر ذرائع سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق ضلع سوات میں نجی سکولوں کی کل تعداد سولہ سو سے تجاوزکر گئی ہے ۔ سوات کے تمام نجی سکولوں کو ایک سروے کے مطابق اُن کے تعلیمی معیار،بنیادی سہولیات کی فراہمی، بچوں کی فیس اور اساتذہ کو ملنے والی تنخواہوں کی مناسبت تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

درجہ اول کے تعلیمی ادارے

پہلے درجے کے سکولوں میں بنیادی سہولیات سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ کمرہ جماعت اور سکول عمارت کی تزئین و آرائش پر خصوصی توجہ دی جاتی ہیں۔ان سکولوں میں بچوں کی ماہانہ فیس 10 ہزار سے لے کر 50 ہزار روپے تک جبکہ اساتذہ کی تنخواہیں 20 ہزار سے 60 ہزار تک ہوتی ہیں ۔ اول درجے کے ان سکولوں میں زیادہ برانڈ یا سکولنگ سسٹم سے وابستہ سکول ہی ہوتے ہیں جن کی شاخیں ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔

دوسرے درجے کے تعلیمی ادارے

دوسرے درجہ کے تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار بھی بہتر ہوتا ہے جبکہ بنیادی سہولیات کی فراہمی ہر صورت یقینی بنائی جاتی ہے ۔ اس درجے کے تعلیمی اداروں میں بھی بچوں کی تربیت و تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز رہتی ہے ۔ بچوں کی ماہانہ فیس دو ہزار سے لے کر 10 ہزار تک ہوتی ہیں جبکہ اساتذہ کو 10 ہزار سے لے کر 35 ہزار روپے تک تنخواہیں دی جاتی ہیں ۔

تیسرے درجے کے تعلیمی ادارے

سوات میں تیسرے درجے کے تعلیمی اداروں میں مسائل سب سے زیادہ ہوتے ہیں تاہم یہاں پر درجنوں ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو کم فیس میں بھی بچوں کو معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں۔ ان سکولوں میں سکول کی بلڈنگ سب سے بڑا مسلہ ہوتا ہے۔ کمرہ جماعت کی کمی، بنیادی سہولتوں میں اکثروبیشتر کا فقدان رہتا ہے۔ کم تعلیم یافتہ اساتذہ اور غیر تجربہ کار منتظمین ہوتے ہیں ۔ بچوں کی فیس کم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اساتذہ کی تنخواہیں بھی انتہائی کم ہوتی ہیں ۔ ماہانہ 800 روپے سے لے کر 2000 تک فیس وصول کرتے ہیں جبکہ اساتذہ کو تین ہزار سے لے کر 8 ہزار تک تنخواہیں ملتی ہیں۔ اسی درجے کے ایک سکول کے معلم ریاض علی خان نے گفتگو میں یہ بھی کہا ہے کہ جتنی تنخواہ انہیں ملتی ہیں وہ اُسی کے حساب سے بچوں کو پڑھاتے ہیں یعنی یہاں پر وہ بچوں کی تربیت پر زیادہ محنت نہیں کرپاتے۔

مشرومز گروتھ سکولز

سوات میں محلوں اور گلی کوچوں کی سطح پر ایک اور درجے کے سکول بھی قائم ہیں جنہیں مشرومز گروتھ سکول کہا جاتا ہے ۔ ایک ایک محلے میں پانچ سے چھ سکولز قائم ہیں جن میں زیادہ تر لوئرکلاس فیملیز کے بچے پڑھتے ہیں۔ سوات میں ان سکولوں کی تعداد دو سو سے تین سو تک بتائی جاتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر سکولوں کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوئی ہے ۔ ان سکولوں کی بلڈنگ دو یا تین کمروں پر مشتمل ہوتی ہیں جبکہ مشکل ہی سے چار یا پانچ اساتذہ ہوتے ہیں ۔ سکول کے پرنسپل کو دوسری کوئی جاب نہیں ملتی تو وہ کرائے کی بلڈنگ لے کر سکول کھول لیتا ہے۔ تعلیمی معیار انتہائی ناقص، بنیادی سہولیات کا فقدان اور اساتذہ بھی ان کوالیفائڈ جو صرف دن کی دیہاڑی لگا کر واپس چلے جاتے ہیں ۔ نجی سکول کے پرنسپل نعمان سعید نے اس حوالے سے گفتگو میں کہا کہ یہی وہ تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جن کے باعث دیگر نجی تعلیمی اداروں کی بدنامی ہوتی ہیں ۔ ان سکولوں کو بند کرنے یا ان کے خلاف کارروائی کرنے میں متعلقہ اداروں نے بھی چھپ سادھ لی ہے جس کے باعث کاروباری ذہنیت رکھنے والے ان افراد کو مزید حوصلہ ملتا ہے اور وہ اکثر اوقات سکولوں کے برانچز بھی کھول لیتے ہیں۔

تیسرےدرجے کے کے ایک تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم بچے کے والد اسرار خان نے گفتگو کے دوران کہا کہ جن تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار بہتر ہوتا ہے یا بنیادی سہولیات زیادہ ہوتے ہیں وہاں پر اپنے بچوں کو پڑھانا مشکل ہوتا ۔ ’’ سکول کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث ہم مجبوراً اپنے بچوں کو اسی سکولوں میں پڑھاتے ہیں ‘‘۔

پرایویٹ سکولز منیجمنٹ ایسوسی ایشن کے تحصیل صدر نثار احمد نے گفتگو کے دوران بتایا کہ سوات میں محکمہ تعلیم اور سوات تعلیمی بورڈ سکولوں کی رجسٹریشن کرواتی تھی ۔ جن سکولوں میں کہی پر بھی کوئی کمی ہوتی تو ان کی رجسٹریشن تب تک نہیں ہوپاتی جب تک وہ اپنی کمی یا خامی کو دور نہیں کرپاتے ’’ صوبائی حکومت کی جانب سے قائم ادارے پی ایس آر اے اب سکولوں کی رجسٹریشن کروا رہی ہیں ، جو سکول رجسٹرڈ ہیں وہ اتھارٹی کی رجسٹریشن کے انڈر آجاتے ہیں جبکہ جن کی رجسٹریشن نہیں ہوئی وہ پرائویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کے لئے قابل قبول نہیں ہوتے ‘‘۔

نجی سکول کے ایک پرنسپل محمد رضوان نے بتایا کہ جن مشرومز سکولوں کی وجہ سے بچوں کا مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا ہیں ۔ زیادہ تر کو پرائویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے رجسٹرڈ کروایا جا چکا ہے ’’ اتھارٹی کے اہلکار نا تو کسی سکول کا معائنہ کرتے ہیں اور ناہی سکول کے دورے لئے کسی انسپکشن ٹیم کو بھجوایا جاتا ہے ۔ اتھارٹی پیسے لے کر سکول کو رجسٹرڈ کروا لیتی ہیں جس سے مشرومز سکولز یا ناقص تعلیمی معیار رکھنے والے سکولوں کی حوصلہ افزائی ہوجاتی ہیں ‘‘

مشرومز سکولوں کے معیار تعلیم کا اندازہ اُن کے طلبہ کی قابلیت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ ایک سکول کے آٹھویں جماعت کے طالب علم جواد جو سکول میں ہمیشہ پہلے نمبر پر آتے ہیں اُن سے جب پوچھا گیا کہ elephant ہاتھی کی سپیلنگ کیا ہے؟ تو طالب علم کا جواب تھا ’’ ALIFANT ‘‘ جب سکول کے پرنسپل سے پوچھا گیا کہ آُپ کے قابل ترین طالب علم کو تو ہاتھی کی سپیلنگ تک نہیں آتی تو وہ کہنے لگے ’’ بچہ آپ لوگوں کو دیکھ کر NAWRAS یعنی اس کا مطلب تھا Nervous ہوگیا ہے۔ ان سکولوں میں زیادہ تر اساتذہ میٹرک پاس یا انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کے حامل ہوتے ہیں جو بچوں کو پڑھاسکتے ہیں اور کم تنخواہ پر بھی کام کر لیتے ہیں۔

سوات کے ماہر تعلیم ڈاکٹر جواد نے گفتگو کے دوران کہا کہ زیادہ تر نجی تعلیمی اداروں کا معیار سرکاری سکولوں سے بھی ابتر ہوتا ہے بلکہ اب تو سرکاری تعلیمی ادارے بھی اچھی پوزیشن لیا کرتے ہیں۔ ڈاکٹرجواد نے مزید بتایا کہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور بچوں کو بہتر تربیت دینے کے لئے مذکورہ رگولیٹری اتھارٹی ،محکمہ تعلیم یا دیگر متعلقہ اداروں کو نجی سکولوں کے لئے یکساں تعلیمی پالیسی بنانا ہوگی ۔ ایک جیسا نصاب اور اس کو پڑھانے کے لئے ایک جیسا طریقہ کار اپنانا ہوگا ’’ جو سکول ایک ہزار روپے کے عوض بہتراور معیاری تعلیم مہیا کرتے ہیں دیگر اعلیٰ درجے کے سکولوں کو بھی اس بات کا پابند بنانا ہوگا کہ وہ اپنی فیسوں میں کمی لائیں تاکہ نجی تعلیمی اداروں کے درمیان موجود تفریق کو ختم کیا جا سکے اور ایک عام آدمی کےبچے کو بھی معیاری تعلیم مہیا ہو سکے ‘‘۔

نجی سکولوں کے حوالے سے ہائی کورٹ نے تحریری فیصلہ بھی سنایا تھا اور باقاعدہ طور بھی بچوں کی فیس اور اساتذہ کی تنخواہیں بھی متعین کی گئی تھی جسے نجی سکول کے مالکان نے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا تھا ۔ تجزیہ نگاروں اور تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا یا اُس فیصلے میں موجود خامیوں کو درست کر کے اُسے اپنایا جاتا تو شاید نجی سکولوں کے مابین پائی جانے والی تفریق ختم ہوجاتی اور ممکن تھا کہ ناقص درجے کے تعلیمی ادارے یا تو بند ہو جاتے یا وہ اپنا تعلیمی معیار بہتر کرپاتے ۔

پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھاٹی

صوبائی حکومت کی جانب سے 2017 میں نجی سکولوں کو مانیٹرکرنے اور حکومتی دائرہ کار میں لانے کے لئے پرائیویٹ سکول سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔ اس ادارے کا مقصد سکولوں کی رجسٹریشن کروانا اور یکساں تعلیمی نصاب نافذکرنا تھا جبکہ سکولوں کی درجہ بندی کر کے اُن کے لئے فیس سٹرکچر بھی متعین کرنا تھا۔ پی ایس آر اے نے سکولوں کی اے سے ای کیٹیگری میں درجہ بندی کا فیصلہ کیا تھا ۔درجہ بندی میں سکول کی عمارت،اساتذہ کی تعلیم،بنیادی سہولیات کی فراہمی کے پیش نظر سکولوں کے لئے فیس سٹرکچر مقرر کرنا تھا۔ دو سال کا عرصہ گزرگیا ہے لیکن ریگولیٹری اتھارٹی اپنے پالیسی کو عملی نا بنا سکی ہے اور صرف سکولوں کی رجسٹریشن تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں ۔ اس حوالے سے ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے موصولہ رپورٹ کے مطابق اب تک صوبہ بھر میں آٹھ ہزار کے قریب سکولوں کو رجسٹرڈ کروایا جا چکا ہے جبکہ مختلف علاقوں میں رجسٹریشن سنٹرز بھی کھولے جا رہے ہیں تاکہ نجی سکولوں کے مالکان اپنے سکولوں کو آسانی سے رجسٹرڈ کروا سکے۔

تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ریگولیٹری اتھارٹی مکمل طور پر فعال نہیں ہو جاتی، ادارے پر اندرونی و بیرونی دباؤ کا خاتمہ نہیں کیا جاتا تب تک یہ ادارہ بغیر معائنے کے صرف رجسٹریشن اور پیسے بٹورنے تک محدود ہوگا ۔ جب تک تمام نجی تعلیمی اداروں کے لئے یکساں نصاب، درجہ بندی کے لحاظ سے فیس سٹرکچر متعین نہیں کیا جاتا تب تک ناقص تعلیمی ادارے وجود میں آتے رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں