افغان طالبان کی امریکا کو عارضی جنگ بندی کی پیش کش

کابل + اسلام آباد (ڈیلی اردو/وائس آف ایشیا) امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے عارضی جنگ بندی کا دعوی کیا ہے جوکہ 10دن کی ہوگی تاہم فریقین کی مشاورت سے اس کی مدت میں اضافہ کیا جاسکے گا۔

امریکی نشریاتی ادارے نے طالبان عہدے دار کے حوالے سے نے تصدیق کی ہے کہ امریکی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد سے مذکرات یں افغان طالبان قیادت سات سے 10 روز کے لیے جنگ بندی پر آمادہ ہو گئی ہے۔

طالبان کے اعلیٰ عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کے اندر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جنگ بندی کے باعث دوبارہ لڑائی کے لیے تیار ہونا مشکل ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ بعض جنگجوؤں کی یہ رائے تھی کہ جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد اسی جوش و جذبے سے میدان جنگ میں جانا آسان نہیں ہو گا ان جنگجوؤں کا استدلال ہے کہ طالبان کی کارروائیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے امریکہ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے مجبور ہوا ہے۔

اس ضمن میں طالبان نے قطر میں ایک دستاویز زلمے خلیل زاد کے حوالے کی ہے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے ماہرین طالبان کی جانب سے لچک دکھانے کو مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے طالبان کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام قرار دے رہے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات گزشتہ سال فروری میں دوحہ میں شروع ہوئے تھے امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے لیے سرگرداں ہیں۔

مذاکرات کے متعدد ادوار کے بعد گزشتہ سال ستمبر میں فریقین حتمی سمجھوتے کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کا عذر پیش کرتے ہوئے مذاکرات معطل کر دیے تھے۔

اس سے قبل زلمے خلیل زاد ایک بیان میں واضح کر چکے ہیں کہ امن معاہدے میں افغان فریقین کے درمیان سمجھوتہ بھی شامل ہو گا ان کا کہنا تھا کہ امن معاہدے میں انسانی حقوق کی پاسداری، اقلیتوں کے تحفظ اور خواتین کے حقوق کی بھی ضمانت شامل ہو گی۔

علاوہ ازیں مستقل جنگ بندی، طالبان جنگجوؤں اور کابل حکومت نواز عسکری گروہوں کے مستقبل کا بھی فیصلہ کیا جائے گا لیکن طالبان کابل حکومت سے مذاکرات سے گریزاں رہے ہیں جسے وہ امریکہ کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان میں مستقبل جنگ بندی کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ یہاں سے اپنی فوج نکالے لیکن امریکی حکام کا یہ اصرار رہا ہے کہ طالبان کو افغانستان میں اپنی کارروائیاں ترک کرنا ہوں گی۔

طالبان آدھے سے زیادہ افغانستان پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں طالبان جنگجو وقتاً فوقتاً امریکہ اور افغان فورسز کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں