سعودی عرب میں قیدیوں کے سر قلم کرنیکی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

ریاض (ڈیلی اردو) سعودی عرب نے سال 2019 میں ریکارڈ تعداد میں قیدیوں کو پھانسی دی، جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں، جبکہ 2020 میں اب تک چار افراد کو پھانسی دی جاچکی ہے۔

تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے برطانوی ادارے ریپریو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے سعودی عرب نے 2019 میں سب سے زیادہ 184 قیدیوں کو پھانسی دی، جن میں 88 سعودی شہری اور 90 غیر ملکی شہری بھی شامل تھے۔

سزائے موت پانے والے غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ پاکستانی شامل ہیں، 82 کو منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں اور 57 کو قتل کے ارتکاب پر پھانسی دی گئی۔ 3 اپریل 2019 کو سعودی سلطنت نے ایک ہی دن میں 37 افراد کے سرقلم کر دیئے تھے، جن میں تمام افراد سعودی شہری تھے، حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنٹسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سرقلم کیے جانے والے افراد میں اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی تھی۔ جبکہ 2015 میں بھی پھانسیوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

اس کے مقابلے میں 2014 میں 88 افراد کو پھانسی دی گئی جبکہ 2016 میں 158 افراد کو پھانسی دی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا گذشتہ چھ سال میں جب سے اس ادارے نے اس قسم کے اعداد و شمار کا حساب رکھنا شروع کیا ہے، 2019 سب سے زیادہ خونی سال ثابت ہوا جبکہ 2020 میں اب تک چار افراد کو پھانسی دی جاچکی ہے۔

خیال رہے سعودی عرب اور خاص طور پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو صحافی جمال خشوگی کے قتل سے متعلق تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یاد رہے اپریل 2018 میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک میں سر قلم کیے جانے کی سزا میں کمی کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا حکومت نے سزائے موت کے دائرہ کار کو محدود کرنے اور عمر قید سمیت دیگر متبادل سزاں کو متعارف کرانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

واضح رہے سعودی عرب میں اب بھی تلوار سے سر قلم کر کے سزائے موت دینے کا طریقہ رائج ہے اور عموما جمعہ کے روز نماز جمعہ کے بعد مجرموں کا کھلے عام سر قلم کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ سعودی حکومت سزائے موت پانے والے افراد سے متعلق کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کرتی لیکن سرکاری ذرائع ابلاغ اس پر اکثر رپورٹ کرتا رہتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں