عراق میں 24 گھنٹوں کے دوران 10 مظاہرین جاں بحق، 88 گرفتار

بغداد (ڈیلی اردو) عراق میں انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والے مظاہروں میں کم سے کم 10 مظاہرین جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔

انسانی حقوق ہائی کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چوبیس گھںٹے ملک میں احتجاج کے حوالے سے انتہائی پرتشدد گذرے جن میں ایک درجن کے قریب مظاہرین جاں بحق ہوئے ہیں۔

ادھر عراقی پولیس نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈائون میں کم سے کم 88 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ انسانی حقوق ہائی کمیشن کے مطابق مظاہرین نے بغداد، البصرہ، الناصریہ اور دوسرے بڑے شہروں کو ملانے والی سڑکیں بلاک کر رکھی ہیں۔

بغداد میں فضائیہ اسکوائر میں مسلسل تیسرے روز نہ صرف مظاہرین کا دھرنا جاری رہا بلکہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان خون ریز جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

جنوبی شہروں البصرہ، کربلا اور النجف میں بھی حکومت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ مظاہرین نے پولیس پر سنگ باری اور پٹرول بموں سے حملے کئے جب کہ پولیس نے جوابی کارروائی میں مظاہرین پراشک آور گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔

خیال رہے کہ عراق میں اکتوبر2019ء کے اوائل سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ سنہ 2003ء کے بعد عراق میں کرپشن اور حکومتی بدانتظامی کے خلاف یہ سب سے بڑا احتجاج ہونے کے ساتھ پرتشدد بھی ہے جس میں اب تک 450 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

درایں اثناء عراق کے عبوری وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے کہا ہے کہ ان کا ملک علاقائی اور عالمی سطح پر انتہائی پچیدہ صورت حال سے دوچار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق اپنے عوام اور دوسرے ممالک کے ساتھ ایک مشکل صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عراق کے سیکیورٹی ادارے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز برتنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سڑکیں اور اسکول بند کرنا پرامن احتجاج نہیں۔ اسے ہرصورت میں بند ہونا چاہیے

اپنا تبصرہ بھیجیں