واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے پاکستانی حکومت کے سوشل میڈیا سے متعلق نئے قواعد و ضوابط پر تشویش کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات اظہار رائے کی آزادی اور ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کے لیے دھچکا ہو سکتے ہیں۔ اپنے ایک ٹوئٹ میں جنوبی ایشیا کے امور کے لیے امریکہ کی اعلیٰ سفارت کار نے کہاکہ ایسے متحرک شعبے کو دبانا بدقسمی ہو گی اس سے پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔
ایمبیسڈر ایلس ویلز کا پاکستان میں سماجی رابطے کے جدید ذرائع پر لگنے والی پابندیوں پر اظہار تشویش #Pakistan pic.twitter.com/TYeHF4UIyj
— USA Urdu (@USAUrdu) February 26, 2020
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ایلس ویلز نے کہا کہ امریکہ اس معاملے پر شراکت داروں سے بات چیت کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے قانون کی منظوری دے تھی جس کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند ہوں گی اور خلاف ورزی کی صورت میں بھاری جرمانہ ہو گا۔
New restrictions on social media platforms in #Pakistan could be setback to freedom of expression & development of digital econ. Unfortunate if Pakistan discourages foreign investors & stifles domestic innovation in such a dynamic sector. Encourage discussion w/ stakeholders. AGW
— State_SCA (@State_SCA) February 25, 2020
حکومت کے اس اقدام پر مختلف طبقات کی طرف سے تنقید کی گئی تھی ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے حکومت کو مذہبی منافرت اور قومی مفاد کے نام پر آزادی اظہار کو کنٹرول کرنے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ صارفین کی جانب سے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نئے حکومتی قواعد پر سخت ردِ عمل کے باوجود ابتدا میں حکومتی وزراءنے اس اقدام کے دفاع میں بیانات دیے۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ سوشل میڈیا کو مادر پدر آزاد اور بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا تاہم محتلف حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا کے نئے قواعد پر تنقید کے بعد اب حکومت نے اس پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے.وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے بتایا کہ سوشل میڈیا قواعد کا ابھی اطلاق نہیں ہوا بلکہ اس حوالے سے کابینہ نے صرف رولز کی منظوری دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا قواعد پر اعتراضات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے نوٹس لیا ہے فریقین سے سے مشاورت کے بعد سوشل میڈیا کے حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سوشل میڈیا قواعد کے حوالے سے مجوزہ بل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا تاہم مخالفت کے باوجود وفاقی کابینہ نے اس کے منظوری دے دی تھی۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک کہتے ہیں کہ اخبارات اور ٹی وی چینل کی کمر توڑنے کی کوشش کے بعد حکومت اب سوشل میڈیا قواعد کے ذریعے لوگوں سے واٹس ایپ اور ٹوئٹر پر احتجاج کا حق بھی چھیننا چاہتی ہے۔
نئے قواعد کے تحت رابطے کی تمام سماجی ویب سائٹس کو چھ ماہ میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اپنا دفتر قائم کرنا ہو گا اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں رابطہ افسر بھی تعینات کرنا ہو گا تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کمپنیوں کو ایک سال میں پاکستان میں اپنے ڈیٹا سرورز بھی بنانا ہوں گے۔
سوشل میڈیا صارفین کو قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے خلاف بات کرنے پر بھی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور تمام کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیشنل کو آرڈینیشن اتھارٹی بھی بنائی جائے گی۔
پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں، بشمول میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی، فریڈیم نیٹ ورک پاکستان، پاکستان پریس فاؤنڈیشن، گلوبل نیبرہوڈ فار میڈیا انوویشن، سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشییٹوز سمیت دیگر اداروں نے بھی سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔ ان تنظیموں نے خاص طور پر یہ نکتہ اٹھایا کہ ڈیجیٹل میڈیا انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنا پیمرا کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی پالیسی عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف سے آنی چاہیے۔