افغانستان: کابل میں سکھوں کی عبادت گاہ پر حملہ کرنے والا بھارتی شہری نکلا

کابل (ڈیلی اردو) عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے افغانستان میں سکھوں کے گردوارے پر خودکش حملہ کرنے والے کی تصویر جاری کردی جو بھارتی شہری ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ابو خالد الہندی نام خودکش بمبار اصل میں محسن ہے جو کیرالہ شہر کا رہائشی ہے تاہم بھارتی حکومت کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ افغانستان کے قدیم ترین گردوارے پر حملے کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔

https://twitter.com/AsYouNotWish/status/1243508061672632320?s=19

خیال رہے کہ 25 مارچ کو افغانستان میں دہشت گردوں نے سکھوں کی دھرم شالا پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 25 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔

حملہ کابل کے شور بازار علاقے میں کیا گیا اور جوابی کارروائی میں 4 حملہ آور بھی مارے گئے تھے۔ حملہ اس وقت ہوا جب لوگوں کی کثیر تعداد دھرم شالا میں عبادت کیلئے جمع تھی۔ حملے کے وقت کم سے کم 200 لوگ دھرم شالا میں موجود تھے۔

داعش نے اپنے پروپیگنڈا میگزین النبا پر 26 مارچ کو ایک تصویر شائع کی تھی جس میں ’’ ابو خالد الہندی ‘‘ نے سالٹ رائفل تھامی ہوئی تھی۔ یہ تصویر دراصل بھارتی ریاست کیرالہ کے ضلع کاسرگوڈ کے تھرکاری پور سے تعلق رکھنے والے انجینئرنگ کے طالب علم محسن کی تھی۔

کیرالہ پولیس کا کہنا ہے کہ داعش کے تین حملہ آوروں کی تصاویر میں ایک محسن کی ہے، وہ دوسرا بھارتی ہے جو داعش میں شامل ہو کر کارروائی میں مارا گیا، اس سے قبل اگست 2015ء میں داعش کا کمانڈر ابو یوسف الہندی عرف شفیع ارمار شام کے شہر رقہ میں ایک خودکش بم حملے میں مارا گیا تھا، وہ پہلا بھارتی تھا جس کو امریکہ نے خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔

بھارتی ریاست کیرالا سے ہجرت کر کے 2016ء میں دہشتگردی کی تربیت لینے کیلئے 98 افراد اپنے اہلخانہ کے ساتھ داعش کے خراسان ونگ میں شامل ہوئے، محسن دبئی سے افغانستان آیا اور یہاں قائم داعش کے تربیتی کیمپوں کا حصہ بنا، شجیر منگلا سیری کی سرکردگی میں چلنے والے ٹیلیگرام گروپ کا سرگرم رکن بن گیا۔

شجیر منگلا سیری انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دبئی سے افغانستان آیا تھا۔ جون 2017ء میں افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں منگلاسیری مارا گیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں اس کے زیادہ تر علاقے کھونے کے بعد داعش نے افغانستان میں پناہ گاہیں تلاش کیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کنڑ اور ننگرہار میں داعش کے2500 سے 4000 جنگجو سرگرم ہیں۔ مئی تا جون 2016 میں کیرالا کے جو 98 افراد اپنے اہل خانہ کیساتھ ننگرہار میں داعش کے نام نہاد صوبہ خراسان میں شامل ہوئے، ان میں 30 براہ راست کیرالہ سے جبکہ 70 خلیجی ممالک سے آئے تھے۔ ان میں سے گزشتہ تین سال کے دوران 7 افراد فضائی حملوں میں ہلاک ہوگئے تھے۔

کیرالہ سے افغانستان میں21 رکنی ٹیم کی قیادت کرنے والے رشید عبد اللہ بھی مئی 2018 میں امریکی فضائی حملے میں مارا گیا تھا رشید اور منگلا سیری نے کیرالہ سے تعلق رکھنے بھارتیوں کی تربیت کی تھی۔

داعش کے ہندوستانی نیٹ ورک کو کیرالہ پولیس نے 21 مئی سے 5 جون ، 2016 تک بے نقاب کردیا تھا، ان میں سے دو میڈیکل ڈاکٹر تھے اور چار عیسائی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ تقریبا 250 ہندوستانی تھے جن میں سے 98 کیرالا سے تھے۔

افغان سکیورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ اس نے افغانستان میں داعش کی کمر توڑ دی ہے، تاہم یہ گروپ اب بھی افغانستان کے اندر اعلی سطح اہداف پر مہلک حملے کرتا رہتا ہے۔

افغانستان میں 300 کے لگ بھگ سکھ خاندان رہائش پذیر ہیں اور ماضی میں بھی انہیں دہشتگردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ سن 2018 میں افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں سکھ برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں