وزیراعظم عمران خان نے کورونا ریلیف فنڈ کے قیام کا اعلان کردیا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/اے پی پی) وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے خصوصی وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ اور کورونا ٹائیگر ریلیف فورس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا آٹھ ارب ڈالر کا ریلیف پیکج دیا ہے، بحیثیت قوم کمزور طبقے کی مدد کر کے اور مل کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیتیں گے، احساس پروگرام کی بنیاد پر خیراتی ادارے رجسٹرڈ ہوں گے، ملک میں ریلیف سے متعلق کوششیں مربوط طریقے سے چلائی جائیں گی، ٹائیگر فورس متاثرہ علاقوں میں کھانا اور دوسری اشیاءپہنچائے گی، ملک میں پانچ سے سات دن تک کورونا کی صورتحال واضح ہو جائے گی، کورونا کے خلاف جنگ ہم نے حکمت سے لڑنی ہے، اگر ملک کو مکمل لاک ڈاﺅن کریں تو بہت بڑی آبادی متاثر ہو گی، غریب علاقوں میں مکمل لاک ڈاﺅن کامیاب نہیں ہو گا، ہمارے حالات بھی چین کی طرح ہوتے تو تمام شہروں کو مکمل بند کر دیا جاتا، بھارتی وزیراعظم کو ملک کو مکمل لاک ڈاﺅن کرنے پر قوم سے معافی مانگنا پڑی ہے، ملک میں اناج کی کوئی کمی نہیں ہے، ذخیرہ اندوزوں کو عبرتناک سزائیں دلوائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس وقت ساری دنیا میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے اور ہر ملک اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نبرد آزما ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین وہ واحد ملک ہے جس نے کورونا وائرس پر قابو پایا ہے، چین نے ووہان شہر میں دو کروڑ افراد کو لاک ڈاﺅن کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے حالات بھی چین کی طرح ہوتے تو تمام شہروں کو مکمل بند کر دیا جاتا، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری 25 فیصد آبادی انتہائی غریب ہے اور دو وقت کی روٹی بھی انہیں مشکل سے میسر ہے جبکہ 20 فیصد آبادی خط غربت کے قریب ہے جو کسی بھی نازک صورتحال میں خط غربت سے نیچے جا سکتی ہے، ان لوگوں کی مجموعی تعداد آٹھ سے نو کروڑ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم مکمل لاک ڈاﺅن کرتے ہیں تو ان کے لئے اشیائے ضروریہ پہنچانا مشکل ہو گا کیونکہ ایک ایک کمرے میں رہنے والے سات، سات، آٹھ، آٹھ افراد کو اشیاءخوردنی نہیں پہنچائی جا سکیں گی، ایسی صورتحال میں لاک ڈاﺅن کامیاب نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ جیسے ملک کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے جس کے وزیراعظم بھی کورونا وائرس میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی حکومت اکیلے کورنا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نبرد آزما نہیں ہو سکتی اور ساری قوم حکومت کے ساتھ مل کر ہی کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیت سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی حکومت نے پورے ملک کو لاک ڈاﺅن کیا اور آج اس کے یہ حالات ہو گئے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم کو اس بات پر قوم سے معافی مانگنا پڑی ہے کہ انہوں نے سوچے سمجھے بغیر لاک ڈاﺅن کیا، بھارت کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ اگر لاک ڈاﺅن ہٹایا جاتا ہے تو کورونا وائرس پھیلے گا اور اگر لاک ڈاﺅن برقرار رکھتے ہیں تو لوگوں کے بھوک سے مرنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہم نے یہ جنگ حکمت سے لڑنی ہے، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم پورے ملک یا کسی علاقے میں اگر لاک ڈاﺅن کرتے ہیں تو کیا ہم وہاں پر لوگوں کو کھانا پہنچا سکیں گے، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو لاک ڈاﺅن کامیاب نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کی صورتحال کا اگر موازنہ کریں تو ہم نے 8 ارب ڈالر کا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکج دیا ہے جبکہ امریکہ نے 2 ہزار ارب ڈالر کا ریلیف پیکج دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے دو چیزیں تقویت کا باعث ہیں جن میں سب سے بڑی ایمان کی طاقت ہے اور قائداعظم کے فرمان ایمان، اتحاد، تنظیم کا پہلا جزو بھی ایمان ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری چیز یہ ہے کہ پاکستان کے لوگ دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والی اقوام میں شامل ہیں اور ہماری نوجوان آبادی دنیا کے کسی بھی ملک کی دوسری بڑی آبادی ہے، ان دو چیزوں کے ذریعے ہم کورونا وائرس کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اس کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں امداد کے لئے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کا اعلان کرتے ہیں، یہ فورس فوج اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرے گی، وزیراعظم آفس میں اس حوالے سے اعداد و شمار اور صورتحال پر نظر رکھی جا رہی ہے، پانچ سے سات دن میں کورونا وائرس کی صورتحال واضح ہو جائے گی کہ اس میں کس حد تک کمی بیشی ہو گی، ٹائیگر فورس لاک ڈاﺅن والے علاقوں میں اشیائے خورد و نوش اور بنیادی ضروری اشیاءپہنچائے گی، ٹائیگر فورس میں کوئی بھی نوجوان شامل ہو سکتا ہے، یہ لوگوں میں کورنا وائرس سے متعلق شعور بیدار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کورونا وائرس کے شکار افراد کو مجرموں کی طرح دیکھا جاتا ہے، یہ وائرس صرف بزرگ اور بیمار افراد کے لئے خطرناک ہے اور چار سے پانچ فیصد افراد کو ہسپتال جانا پڑتا ہے، باقی لوگ صحت یاب ہو جاتے ہیں، نوجوان ڈاکٹر، نرسز، طلبائ، انجینئرز، ڈرائیور اور مکینک بھی اس فورس کا حصہ بن سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہم انہیں بتائیں گے کہ کس طرح کام کرنا ہے، نوجوانوں کی یہ ٹائیگر فورس دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر کسی بھی قسم کی کمی کو پورا کرے گی۔ وزیراعظم نے خصوصی کورونا ریلیف فنڈ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بدھ کے روز سے یہ فنڈ کام شروع کر دے گا، بیرون و اندرون ملک سے اس میں رقوم جمع کرائی جا سکتی ہیں اور فنڈ میں عطیات جمع کرانے والوں کو ٹیکس میں بھی چھوٹ ملے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کو 12، 12 ہزار روپے فراہم کئے جا رہے ہیں جس میں اضافہ بھی کیا جائے گا اور اس فنڈ کے ذریعے بھی ان کے لئے رقوم فراہم کی جائیں گی، فنڈ کا باقاعدہ آڈٹ ہو گا اور کوئی بھی اس کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سٹیٹ بینک نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ جو بھی کاروباری ادارہ مزدوروں کو بے روزگار نہیں کرے گا اسے سستے قرضے فراہم کئے جائیں گے، احساس پروگرام کے فیس بک پیج پر مخیر افراد اور خیراتی اداروں کو رجسٹرڈ کیا جائے گا اور ریلیف کے کام کو باقاعدہ مربوط انداز میں آگے بڑھایا جائے گا جس علاقے اور گاﺅں میں امداد کی ضرورت ہو گی، خیراتی ادارے اور امداد دینے والے افراد کو وہاں پر راشن پہنچانے کے لئے رہنمائی فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے دنوں میں بھی ہم نے اس چیز کی ضرورت کو محسوس کیا کہ امدادی سامان تمام افراد تک پہنچنا چاہیے تاکہ خیراتی رقوم کا بہتر استعمال ہو سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جو لوگ ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں ان کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب اشیاءکی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے تو اس سے قیمتیں بھی بڑھتی ہیں جس سے افراتفری پھیلتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں اناج کی کوئی کمی نہیں ہے جو لوگوں کو بھوک کا شکار کر کے پیسے کمانا چاہتے ہیں ان کو عبرتناک سزائیں دلوائیں گے، ذخیرہ اندوزوں کو ہم نے شکست دینی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ساری قوم مل کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیت سکتی ہے جب لوگ زیادہ اکٹھے ہوتے ہیں تو وائرس پھیلتا ہے اس لئے چاہیے کہ سماجی دوری اختیار کی جائے اور ایک دوسرے سے کم از کم دو گز کا فاصلہ رکھا جائے گا، اگر ہم احتیاط نہیں کریں گے تو اس سے دوسروں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور مدینہ کی ریاست ہمارے لئے رول ماڈل ہے، یہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی، ہم کمزور طبقے، کم آمدنی والے افراد اور کچی آبادیوں کے مکینوں کو سہولت فراہم کر کے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں، ذخیرہ اندوزی کی صورت میں کمزور اور غریب لوگ بھوکے رہ جاتے ہیں جس طرح انصار مدینہ نے مہاجرین کی مدد کی، ویسا ہی جذبہ آج چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں